جواب :
❀ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا:
”میرے نزدیک ”إذا قرئ القرآن فاستمعوا“ جب قرآن مجید پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو تبلیغ پر محمول ہے، اس جگہ قراءت فی الصلوۃ مراد نہیں، سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے تو اب ایک مجمع میں بہت آدمی مل کر قرآن پڑھیں تو کوئی حرج نہیں“ (الکلام الحسن: 212/2)
عبد الماجد دریا آبادی نے کہا:
حکم کے مخاطب ظاہر ہے کہ کفار و منکرین ہیں اور مقصود اصلی یہ ہے کہ جب قرآن بہ غرضِ تبلیغ پڑھ کر تم کو سنایا جائے تو اسے توجہ و خاموشی کے ساتھ سنا کرو، تا کہ اس کا معجزہ ہونا اور اس کی تعلیمات کی خوبیاں تمہاری سمجھ میں آ جائیں اور تم ایمان لا کر مستحقِ رحمت ہو جاؤ“
(تفسیر ماجدی: جلد دوم ص 263 حاشیہ نمبر 30)

جواب:
ہمارے پاس تفسیر طبری کا جو نسخہ ہے اس کی (ج 9 ص 110) پر ”عن بشير بن جابر“ لکھا ہوا ہے۔
(مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت لبنان: 514/7 1987م)
بشیر بن جابر کے حالات کسی کتاب میں بھی نہیں ملے، ایسا راوی جس کے حالات نہ ملیں مجہول یا مستور ہوتا ہے۔ سرفراز خان صفدر دیوبندی نے اپنے رسالے میں علامہ زبیدی سے نقل کیا ہے کہ امام صاحب (ابو حنیفہ) کے نزدیک مجہول کی روایت مردود ہے ۔
(أحسن الکلام 95/2 طبع دوم)
بشیر بن جابر کو صاحب ”حدیث اور اہلِ حدیث“ نے ”یسیر بن جابر“ لکھ دیا ہے، اس سند کے ایک راوی المحاربی کا تعین کتبِ رجال و کتبِ حدیث سے مطلوب ہے۔ دوسرے یہ کہ اس روایت میں امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا سے صاف ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے امام کے پیچھے جہری قراءت کی تھی۔ اور یہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ اہلِ حدیث کے نزدیک بغیر عذرِ شرعی (مثل علالت قراءت) امام کے پیچھے جہری قراءت ممنوع ہے۔

جواب:
یہ روایت علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس کی سند سے ہے۔
(کتاب القراءۃ ص 88 ح 222)
محمد زاہد الکوثری نے ”علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس“ والی ایک روایت کے بارے میں لکھا ہے:
”غير صحيح للإنقطاع فى السند لأن على بن أبى طلحة لم يدرك ابن عباس“
یہ سند میں انقطاع کی وجہ سے صحیح نہیں ہے کیونکہ علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نہیں پایا۔
(مقامات الکوثری ص 355)
کوثری مذکور کا دیوبندیوں کے نزدیک بڑا مقام ہے۔ مثلاً دیکھئے عبد القدوس قارن دیوبندی کی کتاب ”امام اعظم ابو حنیفہ کا عادلانہ دفاع“ وغیرہ علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس والی سند پر مزید جرح کے لیے محمد ابراہیم کی کتاب ”الحق الصريح فى حيات المسيح“ (ص 27)(طبع ادارہ مرکز دعوۃ و ارشاد رجسٹرڈ چنیوٹ پاکستان) دیکھیں۔

جواب:
یہ روایت الدر المنثور (156/3) میں بحوالہ ابو الشیخ مذکور ہے۔ ابو الشیخ نے یہ روایت کسی سند سے بیان کی تھی، اس کا کوئی پتا نہیں ہے، لہٰذا یہ روایت بے سند ہے اور دیوبندیوں کے نزدیک بے سند روایت حجت نہیں ہو سکتی“
(دیکھئے أحسن الکلام: 327/1)

جواب:
اس روایت کا ایک راوی ہشام بن زیاد ہے جس پر امام بیہقی نے اسی مقام پر جرح کر رکھی ہے۔
(کتاب القراءۃ ص 87 ح 218)
❀ عینی حنفی نے کہا:
”لا يحتج بحديثه“
اس کی حدیث کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی۔
(شرح سنن ابی داود: 253/3)
عینی مذکور کا دیوبندیوں کے نزدیک بڑا مقام ہے۔
⟐ امام ابن تیمیہ (پیدائش 661ھ) کی امام احمد (وفات 241ھ) سے روایت بے سند ہے، جو لوگ اسے صحیح سمجھتے ہیں ان پر لازم ہے کہ امام ابن تیمیہ سے امام احمد تک صحیح متصل سند پیش کریں۔

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے،، (دیکھئے حدیث: 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)
روايت نمبر 10
جواب:
یہ روایت منسوخ ہے، اس حدیث کے راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی یہ جہری نمازوں میں بھی فاتحہ خلف الإمام کا حکم دیتے تھے۔
(دیکھئے آثار السنن ح 358 و مسند الحمیدی نسخہ دیوبند ح 974)
راوی اگر اپنی روایت کے خلاف فتویٰ دے تو وہ روایت دیوبندیوں کے نزدیک منسوخ ہوتی ہے۔
(دیکھئے شرح معانی الآثار للطحاوی (23/1) و آثار السنن مع التعلیق (20) و توضیح السنن (107/1) و خزائن السنن (191، 192) و عمدۃ القاری (41/3) و حقائق السنن (405/1) و تقریر ترمذی حسین احمد (ص 210)
طحاوی اور عینی کے حوالے اس لیے پیش کیے ہیں کہ دیوبندیوں کے نزدیک ان کا بڑا مقام ہے۔

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)
❀ ثابت بن أسلم البنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان يأمرنا بالقراءة خلف الإمام
(سیدنا أنس رضی اللہ عنہ) ہمیں قراءت خلف الإمام کا حکم دیتے تھے۔
(کتاب القراءۃ للبیہقی ص 101 ح 231 وسندہ حسن)

جواب:
عبد الرحمن بن زید بن أسلم ضعیف ہے۔ (نصب الرایۃ 130/4)
زیلعی حنفی کا دیوبندیوں کے نزدیک بڑا مقام ہے۔ (دیکھئے القول المتین ص 58)
دوسرے راوی عبد المنعم بن بشیر کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
”ذاك الكذاب يعيش“
یہ جھوٹا (ابھی تک) زندہ ہے۔
(لسان المیزان: 75/4)
معلوم ہوا کہ ”حدیث اور اہلِ حدیث“ کا مصنف کذاب راوی کی روایت بطورِ حجت پیش کرتا ہے۔
تنبیہ :
میزان الاعتدال (669/2 ت 2571) میں ابو مودود القاص: عبد العزیز بن ابی سلیمان الہندی کے بارے میں لکھا ہوا ہے:
”وثقه أحمد ويحيى بن معين وقد رأى أبا سعيد الخدري ولحقه القعنبي وكامل الجحدري“
(دیکھئے تہذیب الکمال 499/11، 500)
اس توثیق کا عبد المنعم بن بشیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جواب:
اس روایت کی سند کتاب القراءۃ میں مذکور نہیں ہے، لہٰذا یہ بے سند روایت ہے، دیکھئے (جواب نمبر 3 ص 109) یہ بے سند روایت امام بیہقی بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں:
”هذا حديث منقطع وراويه غير محتج به“
یہ حدیث منقطع ہے اور اس کا راوی حجت نہیں ہے۔
(کتاب القراءۃ ص 116 ح 291)

جواب:
اس کا ایک راوی حارث بن عبد اللہ الأعور الہمدانی ہے، علامہ نووی نے فرمایا: ”فإنه كان كذابا“ بے شک یہ کذاب تھا۔
(نصب الرایۃ: 367/1)
زیلعی نے کہا: ”كذبه الشعبي وابن المديني“ اسے (امام) شعبی اور ابن المدینی نے کذاب کہا ہے۔
(نصب الرایۃ: 3/2)
حارث پر جرح کتاب القراءۃ کے مذکورہ صفحے پر بھی موجود ہے، حارث کے علاوہ: غسان بن الربیع، قیس بن الربیع اور ابو سہل محمد بن سالم بھی مجروح ہیں، ( دیکھئے میزان الاعتدال)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
یہ روایت منسوخ ہے۔
(دیکھئے حدیث نمبر 10)

جواب:
اس پر علامہ نووی نے ”باب نهي المأموم عن الجهر بالقراءة خلف إمامه“ کا باب باندھا ہے۔
(حاشیہ صحیح مسلم: ج 1 ص 172)
معلوم ہوا کہ مقتدی نے جہر سے سورۃ الأعلىٰ پڑھی تھی، اور اہلِ حدیث کے نزدیک امام کے پیچھے جہر سے پڑھنا، بغیر عذرِ شرعی کے ممنوع ہے۔ عذرِ شرعی سے مراد بھولنے والے قاری کو لقمہ دینا ہے۔

جواب:
اس کا تعلق قراءت بالجہر خلف الإمام سے ہے، (دیکھئے حدیث سابق: 24)

جواب:
اس کا تعلق قراءت بالجہر خلف الإمام سے ہے،( دیکھئے حدیث سابق: 24)

جواب:
یہ حدیث منسوخ ہے، (دیکھئے حدیث سابق: 10، 18)

جواب:
یہی روایت جزء القراءۃ للبخاری (ح 254 تحقیقی) میں ”كانوا يقرءون القرآن فيجهرون به“ کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کا تعلق قراءت بالجہر خلف الإمام سے ہے۔

جواب:
عبد اللہ بن شداد نے یہ روایت ابو الولید عن جابر کی سند سے بیان کی ہے دیکھئے آنے والی حدیث۔ ابو الولید رجل مجہول ہے۔
(کتاب القراءۃ للبیہقی: ص 125 ح 313)
تنبیہ:
عبد اللہ بن شداد کی کنیت ابو الولید ہونے کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ ان کا کوئی استاد ابو الولید نامی نہیں تھا۔ امیر المؤمنین فی الحدیث ابو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری کے استاد امام أحمد بن حنبل کی کنیت بھی ابو عبد اللہ ہے۔
(دیکھئے تہذیب الکمال: 227/1)

جواب:
اس کا راوی ابو الولید مجہول ہے (دیکھئے کتاب القراءۃ ص 125، 127)
تنبیہ:
یہی روایت قاضی ابو یوسف کی طرف منسوب کتاب الآثار میں عن عبد اللہ بن شداد بن الهاد عن ابی الولید عن جابر بن عبد اللہ کی سند سے موجود ہے۔ امام ابو علی الحافظ کا اسے خطأ قرار دینا غلط ہے۔

جواب:
موطأ امام محمد نامی کتاب کا مصنف محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی بقول امام یحییٰ بن معین:”جہمی کذاب“ ہے۔
(لسان المیزان: 133/5)
قاضی ابو یوسف سے مروی ہے کہ ”محمد بن الحسن مجھ پر جھوٹ بولتا ہے“۔
(إیضاً ص 132)

جواب:
یہی روایت مسند أحمد (339/3 ح 14698، مطبوعہ عالم الكتب، أطراف المسند: 139/2 ح 1926، اور التحقیق لابن الجوزی: 363/1 ح 472) میں بحوالہ حسن بن صالح عن جابر عن أبی الزبیر عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی سند سے موجود ہے۔ جابر بن یزید الجعفی کذاب ہے دیکھئے زوائد البوصیری علی سنن ابن ماجہ (ص: 140 ح 282) و نصب الرایۃ للزیلعی (344/1) ابو الزبیر مدلس ہے (آثار السنن ح 863) دیوبندی مناظر ماسٹر أمین اوکاڑوی صاحب فرماتے ہیں: یہ حدیث سنداً (سند کے اعتبار سے) ضعیف ہے کیونکہ ابو الزبیر مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے (جزء رفع الیدین تحقیق: اوکاڑوی ص: 318 حدیث: 56)
❀ جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
”مدلس راوی عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں“ (خزائن السنن: 1/1)

جواب:
صاحب فتح القدیر (ابن ہمام) سے أحمد بن حنبل تک پوری سند نا معلوم ہے اگر دنیا کے کسی کونے سے مسند أحمد بن حنبل دستیاب ہو جائے اور فتح القدیر والی سند وہاں لکھی ہوئی مل جائے تو بھی ابو الزبیر مدلس کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(دیکھئے حدیث سابق: 32)

جواب:
اس کا راوی ابو عصمۃ: عاصم بن عصام خزاعی لا يعرف (غیر معروف) ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (221/3) اور حسن بن محمد بن جابر کے حالات نا معلوم ہیں (ان دو مجہول راویوں کی وجہ سے یہ روایت باطل ہے)

جواب:
محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے۔ ( دیکھئےحدیث سابق: 31)

جواب:
اس روایت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ کتاب کے مصنف امام دارقطنی نے فرمایا:
”وهو وهم من زيد بن الحباب“
اور یہ (روایت) زید بن حباب کا وہم ہے۔
(333/1 ح 1338)

جواب:
اس کا ایک راوی محمد بن عباد الرازی ضعیف ہے (نصب الرایۃ: 11/2) کتاب القراءۃ کے مذکورہ صفحے پر درج ہے کہ امام دارقطنی نے فرمایا: ”أبو بكر إسماعيل بن إبراهيم الأقيمي اور محمد بن عباد الرازی (دونوں) ضعیف ہیں۔“
(ص 170 ح 403)

جواب:
کتاب القراءۃ کے اسی صفحے پر اس روایت کے ایک راوی خارجہ بن مصعب کے بارے میں لکھا ہوا ہے:
”كان يدلس عن جماعة من الكذابين“
یہ جھوٹوں کی ایک جماعت سے تدلیس کرتا تھا۔
(ص 156 ح 370)

جواب:
❀ سنن دارقطنی کے مذکورہ صفحے پر لکھا ہوا ہے:
”عاصم بن عبد العزيز ليس بالقوي ورفعه وهم“ عاصم قوی نہیں اور اس کا مرفوع بیان کرنا وہم ہے۔
(331/1 ح 1338)

جواب:
کتاب القراءۃ کے اسی صفحے پر اس روایت کے بارے میں لکھا ہوا ہے: بإسناد مظلم یعنی اس کی سند اندھیرے میں ہے۔
(ص 153 ح 365)
رجاء بن ابی رجاء سے نیچے سند نا معلوم ہے۔

جواب:
یہی روایت کتاب القراءۃ (ص 151، 152 ح 361) وغیرہ میں:
فلا تفعلوا وليقرأ أحدكم بفاتحة الكتاب فى نفسه
پس نہ کرو اور تم میں سے ہر آدمی اپنے دل میں سورۃ فاتحہ پڑھے کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
لہٰذا یہ حدیث فاتحہ خلف الإمام کی دلیل ہے۔ ترک القراءۃ خلف الإمام کی دلیل نہیں ایک صحیح حدیث کے دو باہم متعارض ٹکڑے بنا کر، ایک ٹکڑے سے استدلال کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

جواب:
جواب: کتاب القراءۃ للبیہقی میں اسی روایت کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
هذا إسناد باطل فيه من لا يعرف، ومحمد بن إسحاق هذا إن كان هو العكاشي فهو كذاب يضع الحديث
یہ سند باطل ہے، اس میں وہ (راوی) ہے جو معروف نہیں ہے۔ اور یہ محمد بن إسحاق اگر عکاشی تھا تو وہ کذاب تھا حدیثیں گھڑتا تھا۔
(ص 177 ح 418)

جواب:
یحییٰ بن عبد اللہ بن سالم اور یزید بن عیاض دونوں پر جرح کتاب القراءۃ کے مذکورہ صفحے پر موجود ہے۔ (ص 183 ح 419)
❀ امام دارقطنی نے فرمایا:
ويزيد بن عياض ضعيف متروك
یاد رہے کہ یہ روایت منقطع بھی ہے۔
(نصب الرایۃ: 376/4)

جواب:
یہ روایت مصنف عبد الرزاق کے مذکورہ صفحے پر نہیں ملی، معانی الآثار میں یحییٰ بن سلام کی سند سے موجود ہے، طحاوی حنفی نے ایک روایت کے بارے میں کہا:
من ذلك حديث يحيى بن سلام عن شعبة فهو حديث منكر، لا يثبته أهل العلم بالرواية لضعف يحيى بن سلام عندهم
یحییٰ بن سلام کی شعبہ سے حدیث منکر ہے، علمائے حدیث اسے یحییٰ بن سلام کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ثابت نہیں مانتے۔ (شرح معانی الآثار 1/498)
تنبیہ :
مصنف عبد الرزاق (120/2 ح 2745) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا قول ضرور موجود ہے جس پر بحث آگے آ رہی ہے۔ (دیکھئے ص 134)

جواب:
اس کا راوی یحییٰ بن سلام ضعیف ہے۔ دیکھئے حدیث سابق (44) کتاب القراءۃ کے مذکورہ صفحے پر اسے ”کثیر الوہم“ لکھا ہوا ہے، امام دارقطنی نے فرمایا:
”يحيى بن سلام ضعيف“
(327/1 ح 1228)

جواب:
اس روایت کے درجِ ذیل راوی نامعلوم التوثیق ہیں:
علی بن کیسان، بالو یہ بن محمد، محمد بن شادل اور إسماعیل بن إبراهيم، صاحب ”حدیث اور اہلِ حدیث“ اور ان کی پارٹی پر یہ لازم ہے کہ ان راویوں کی توثیق بہ اصولِ محدثین ثابت کریں۔

جواب:
اس روایت کے ساتھ کتاب القراءۃ میں لکھا ہوا ہے:
”هذا باطل“ یہ روایت باطل ہے۔ (ص 176 ح 417)
اس کا راوی أحمد بن محمد بن قاسم متہم ہے۔ (لسان المیزان: 290/1)
أحمد بن عبد الرحمن السرخی کے حالات نامعلوم ہیں، إسماعیل بن الفضل کی توثیق بھی مطلوب ہے۔
( نیز دیکھئے الکواکب الدریۃ ص 56)

جواب:
اس روایت کے فوراً بعد امام بیہقی نے اس کے بارے میں لکھا ہے: ”ہذہ روایۃ منکرۃ“ یہ روایت منکر ہے۔ (ص 122 ح 303)
جس شخص کو امام بیہقی کے فیصلے سے اختلاف ہے وہ کسی دوسری کتاب سے یہ روایت پیش کرے۔

جواب:
اس کا راوی عبد الرحمن بن إسحاق ہے جس سے تعین میں اہلِ حدیث اور دیوبندیوں کے درمیان اختلاف ہے، قولِ راجح میں یہ ابو شیبہ الواسطی ہے دیکھئے جزء القراءۃ للبیہقی (80) اور یہ الواسطی مشہور ضعیف ہے، اس پر جرح کے لیے (دیکھئے نصب الرایۃ 314/1)

جواب:
اس روایت کے بعد امام دارقطنی نے فرمایا: ”هذا مرسل“ (330/1 ح 1233)
یعنی یہ روایت منقطع ہے، محمد بن سالم مجروح ہے۔ (دیکھئے حدیث سابق: 7یہی باب)
علی بن عاصم پر جرح کے لیے (دیکھئے نصب الرایۃ 109، 27/3، 372/2)

جواب:
اس کا راوی ابو إسحاق مدلس ہے، دیکھئے نصب الرایۃ (217/1) و ظفر الأمانی (ص 421) اور روایت مععن ہے، ابو إسحاق پر مزید جرح کے لیے دیکھئے مجموعۃ رسائل (125/1) تحقیق مسئلہ آمین (ص 53)، سنن الدارمی (1/398 ح 1469) والی سند میں قیس بن الربیع ضعیف ہے، دیکھئے نصب الرایۃ (19/2) وغیرہ۔ دوسرا راوی ابو ہشام محمد بن یزید الرفاعی بھی مجروح ہے، ( دیکھئے حاشیۃ سنن الدارقطنی382/1 طبع عباس أحمد الباز مکہ)

جواب:
اس روایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ فاتحہ نہ پڑھیں، اور نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ امام آمین نہ کہے۔

جواب:
یہ روایت موضوع سے غیر متعلق ہے،( دیکھئے حدیث سابق: 52)

جواب:
غیر متعلق ہے، (دیکھئے حدیث سابق: 52)

جواب:
اس حدیث کے راوی امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور آپ کے جواب میں یہ بات نہیں ہے کہ انھوں (ابو بکرہ رضی اللہ عنہ) نے قیام کے بغیر رکوع کو شمار کر لیا تھا ۔
(جزء القراءۃ تحقیقی: 136)
یعنی اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے۔

جواب:
یہ روایت اہلِ حدیث کی دلیل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوتے تھے اور ابو بکر اور عمر و عثمان رضی اللہ عنہم ان کے مقتدی، جب امام اور مقتدی سب سورۃ فاتحہ سے نماز شروع کرتے تھے تو یہ ثابت ہو گیا کہ مقتدی کو بھی سورۃ فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے، غالباً اسی وجہ سے امام الدنیا فی فقہ الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث اپنی کتاب جزء القراءۃ میں لائی ہیں۔
(دیکھئے ح 117-128)

جواب:
جواب: یہ روایت بھی اس کی واضح دلیل ہے کہ (امام ہو یا مقتدی) نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔ والحمد لله

جواب:
اس روایت کے متن کے تین حصے ہیں۔
الف: فصاعداً
❀ انوار شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
پھر احناف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس حدیث سے مراد فاتحہ اور سورت ملانے کا وجوب ہے لیکن یہ بات لغت کے خلاف ہے کیونکہ اہل لغت اس پر متفق ہیں کہ ف کے بعد جو ہو وہ غیر ضروری ہوتا ہے، سیبویہ (نحوی) نے اپنی الکتاب کے باب الإضافہ میں اس کی صراحت کی ہے۔
(العرف الشذی ص 67 ترجمہ از راقم الحروف، نیز دیکھئے جزء القراءة تحقیقی)
ب: سفیان بن عیینہ کا قول:
یہ قول سفیان بن عیینہ سے ثابت نہیں ہے۔ سفیان بن عیینہ (198 ھ )میں فوت ہوئے جبکہ امام ابو داود (202ھ )میں پیدا ہوئے، لہٰذا یہ قول منقطع ہونے کی وجہ سے ثابت ہی نہیں ہے اور یہ خیال کرنا غلط ہے کہ ابو داود نے یہ قول قتیبہ بن سعید یا ابن السرح سے سنا ہوگا، اگر ان سے سنا ہوتا تو یہ نہ فرماتے کہ ”قال سفيان“ بلکہ فرماتے ”قال قتيبة أو ابن السرح: قال سفيان“.
ج: احمد بن حنبل
واختار أحمد مع هذا القراءة خلف الإمام وأن لا يترك الرجل فاتحة الكتاب وإن كان خلف الإمام
اور اس کے باوجود احمد نے قراءت خلف الإمام کو اختیار کیا، اور یہ کہ آدمی امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ ترک نہ کرے۔ (مع العرف الحدی)
معلوم ہوا کہ احمد کے نزدیک ”ترك القراءة خلف الإمام“ کا باب غلط ہے۔

جواب:
عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہے،( دیکھئے حدیث سابق: 15)

جواب:
أنس بن سیرین (33 یا 34 ھ )میں پیدا ہوئے (تہذیب التہذیب: 374/1) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (23ھ )میں شہید ہوئے (تقریب التہذیب: 4888) نافع نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا (إتحاف المهرة: 386/12) لہٰذا یہ روایت منقطع ہے، امام ابو حنیفہ منقطع روایت کو حجت نہیں سمجھتے۔
( دیکھئے شرح معانی الآثار: 164/2 باب الرجل يسلم في دار الحرب وعنده أكثر مع أربع نسوة۔)

جواب:
اس کا راوی سفیان ثوری مدلس ہے۔
(الجوہر النقی: ج 8 ص 262، خزائن السنن: 2 جلد سے مجموعہ رسائل 1331/30، آیین تسکیں الصدور ص 290)
مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی۔
(خزائن السنن: آراء، جزء القراءت تحقیق: امین اوکاڑوی دیوبندی: ج 62 ص 72)

جواب:
اس کا راوی محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے،( دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
سنن الدارقطنی (332/1 ح 1243) والی روایت میں قیس بن ربیع ضعیف ہے،( دیکھئے حدیث سابق: 51 )
حسین بن عبد الرحمن محمد الأزدی مجہول اور احمد بن محمد بن سعید بن عقدة الرافضی غیر موثق، برا آدمی اور چور ہے، دیکھئے الکامل لابن عدی (209/1) دسوالات السہمی (166) و تاریخ بغداد (22/5) اہل حدیث کے خلاف ایک پیشہ ور چور کی روایت پیش کر کے دیوبندی حضرات یہ سمجھ رہے ہیں کہ میدان مار لیا ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ (376/1 ح 3781) والی روایت ”عن عبد الرحمن الأصبهاني عن ابن أبى ليلى عن علي“ کی سند سے ہے، الأصبهانی کے استاد ابن ابی لیلیٰ سے مراد مختار بن عبد اللہ بن ابی لیلی ہے (دیکھئے جزء القراءت للبخاری 38) تحقیقی و کتاب القراءت للبیہقی: (ص 190 ح 417) و سنن الدار قطنی (331/1 ح 1241)
❀ امام دار قطنی نے فرمایا:
”ولا يصح إسناده“
اور اس کی سند صحیح نہیں ہے۔
ابن حبان نے کہا:
”هذا الشيء لا أصل له وابن أبى ليلى هذا رجل مجهول“
اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہ (مختار) بن ابی لیلیٰ مجہول انسان ہے۔
(الحجر و معین: 5/2)
❀ امام بخاری نے فرمایا:
یہ (اثر بلحاظ سند) صحیح نہیں ہے کیونکہ مختار معروف نہیں ہے۔

جواب:
محمد بن عجلان طبقہ خامسہ میں سے ہے۔ (تقریب التہذیب: 6136)
طبقہ خامسہ کے کسی راوی کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ سند منقطع ہے۔

جواب:
اس اثر کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں ما عدا الفاتحہ نہ پڑھا جائے الا یہ کہ بھولنے والے قاری کو لقمہ دیا جائے۔

جواب:
اس کا راوی محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے۔( دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
کتاب القراءت للبیہقی (ح 343) والی روایت کا راوی عمرو بن عبد الغفار الرافضی جمہور محدثین کے نزدیک سخت مجروح ہے دیکھئے لسان المیزان (369/4: 37) دوسرا راوی ابن ابی لیلیٰ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
(فیض الباری: 3/28 و معارف السنن: 290/5)
دوسری روایت کا راوی محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے۔ (دیکھئے حدیث سابق 31)

جواب:
اس کا راوی ابو اسحاق السبیعی مدلس ہے۔ (دیکھئے حدیث سابق 50)، اور سند منقطع ہے۔

جواب:
مجمع الزوائد میں یہ روایت بحوالہ ”الطبرانی فی الكبير“ منقول ہے، المعجم الكبير للطبرانی (ج 9 ص 303 ح 9312) میں ابو حمزہ (میمون الأعور) کی سند سے یہ موجود ہے۔ میمون مذکور کے بارے میں امام احمد نے فرمایا: ”متروک“ ابن معین نے کہا: ”ليس بشيء“ (نصب الرایہ: 373/2)

جواب:
یہ روایت ما عدا الفاتحہ پر محمول ہے، یعنی جہری نمازوں میں فاتحہ کے علاوہ امام کی جو قراءت ہے وہی مقتدی کی قراءت ہے۔

جواب:
محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے۔ (دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
محمد بن الحسن کذاب ہے۔ (دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
اس کا راوی ہشام بن حسان مدلس ہے۔ (طبقات المدلسین: 3/110)
طبقات المدلسین کا ذکر دیوبندیوں نے اصول حدیث میں کیا ہے۔ (علوم الحدیث ص 147 تألیف محمد عبید اللہ الأسعدی)
یہ روایت معنعن ہے۔ کتاب القراءت (ص 157 ح 373) والی روایت انتہائی مختصر اور دوسری سند ہے ”يكفيك قراءة الإمام“ اس اثر کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں فاتحہ کے سوا امام کی قراءت تیرے لیے کافی ہے۔ والحمد لله

جواب:
یعنی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے جہریہ میں ما عدا الفاتحہ سے منع کرتے تھے۔ (ص 333)

جواب:
یعنی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے جہری اور سری میں فاتحہ کے علاوہ قراءت نہیں کرتے تھے۔ نافع فرماتے ہیں کہ
كان إذا كان مع الإمام يقرأ بأم القرآن فإذا أمن الناس أمن ابن عمر ورأى تلك السنة
(ابن عمر رضی اللہ عنہما) جب امام کے ساتھ ہوتے تو سورۃ فاتحہ پڑھتے پھر جب لوگ آمین کہتے تو ابن عمر آمین کہتے اور اسے سنت سمجھتے تھے۔
(صحیح ابن خزیمہ: ج 1 ص 287 ح 572 وسنده حسن وأخطأ من قال: إسناده ضعیف)
اس میں اسامہ بن زید سے مراد اللیثی ہے جو کہ حسن الحدیث وثاقۃ الجمہور ہیں۔

جواب:
یعنی امام کے پیچھے کسی نماز میں بھی (لقمہ کے علاوہ) جہراً قراءت نہیں کرنی چاہیے، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ ظہر و عصر میں فاتحہ پڑھتے تھے۔
(سنن ابن ماجہ: 843 وقال البوصیری: هذا إسناد صحیح رحلۃ السندي على سنن ابن ماجہ: 278/1)

جواب:
( دیکھئے حدیث سابق: 7)
یعنی امام کے پیچھے جہراً قراءت نہیں کرنی چاہیے۔

جواب:
جواب:
جواب:
موسیٰ بن سعد بن زید بن ثابت کی ان کے دادا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے، اس روایت پر امام بخاری نے جرح کی ہے۔
( دیکھئے جزء القراءت: ح 45)

جواب:
اس کے راوی سفیان الثوری مدلس ہیں۔ (دیکھئے جواب سابق: ص 129/2)

محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے،( دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
ابو نجاد مجہول ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: ”معروف نہیں ہے اور نہ اس کا نام معلوم ہے“ (جزء القراءت: 39 تحقیقی)

جواب:
یعنی امام کے پیچھے جہراً قراءت نہیں کرنی چاہیے، ابن عباس رضی اللہ عنہما خود فرماتے ہیں کہ ”أقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب“ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھ۔ (مصنف ابن أبي شيبة 375/1 ح 3776 سند صحیح)

جواب:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ظہر وعصر میں جہراً قراءت کرتے تھے، خود ابن عباس رضی اللہ عنہما قراءت فاتحہ خلف الإمام کے قائل تھے۔ (دیکھئے حدیث سابقہ : 1)

جواب:
اس قول سے معلوم ہوا کہ امام ہو یا مفرد، ہر رکعت میں اگر سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے تو وہ رکعت نہیں ہوتی، نیز دیکھئے (حدیث اور أهل الحدیث ص 353-360) صرف مقتدی کی نماز (ادراک رکوع کی حالت میں) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہو جاتی ہے، جب کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک مدرک رکوع کی رکعت بھی نہیں ہوتی جیسا کہ آگے آرہا ہے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الإمام کے قائل و فاعل تھے۔ (دیکھئے سنن ابن ماجہ: 843)

جواب:
جواب:
یعنی کیا آپ ظہر و عصر میں امام کے پیچھے جہراً قراءت کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں۔ یہ تاویل اس لیے کی گئی ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ظہر وعصر میں فاتحہ خلف الإمام پڑھتے تھے (سنن ابن ماجہ: 843 وسندہ صحیح) ورنہ پھر اس روایت کو فعل صحابی کی وجہ سے حنفی و دیوبندی و بریلوی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے منسوخ ماننا پڑے گا۔

جواب:
یعنی جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے علاوہ، امام کی قراءت مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔

جواب:
اس کا راوی محمد بن الحسن کذاب ہے۔( دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
محمد بن الحسن کذاب ہے۔( دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
مالک بن عمارہ مجہول ہے، نیوی نے کہا:
فيه مالك بن عمارة لم أقف من هو
یعنی اس میں مالک بن عمارہ ہے میں اسے نہیں جانتا۔
(التعليق الحسن على آثار السنن ص 17 تحت ح 372)
دوسرا راوی أشعث (بن سوار) ضعیف ہے۔ (دیکھئے نصب الراية 464/2، 20/1) وغیرہ ضعفہ الجمہور

جواب:
یہ اثر ما عدا الفاتحہ اور جہراً قراءت خلف الإمام پر محمول ہے۔

جواب:
سفیان ثوری مدلس ہیں۔ ( دیکھئے حدیث سابق: 6 ص 329) أعمش اور ابراہیم دونوں مدلس ہیں (دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 2/55، اور 2/35)

جواب:
یعنی ظہر وعصر میں سوید بن غفلة رضی اللہ عنہ کے نزدیک ما عدا الفاتحہ قراءت نہیں کرنی چاہیے، یاد رہے کہ صحابہ کرام و غیرہم کے نزدیک ظہر وعصر میں ما عدا الفاتحہ قراءت جائز ہے۔ والحمد لله

جواب:
قتادہ مدلس ہیں (دیکھئے جزء رفع الیدین بتحقیق محمد امین اوکاڑوی دیوبندی ص 289 ح 29-31 اس کا حاشیہ) اور روایت معنعن ہے۔

جواب:
ہشام مدلس ہے۔ ( دیکھئے حدیث سابق)

جواب:
محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے۔( دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
یعنی بشرط صحت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ کے نزدیک جو شخص امام کے پیچھے جہراً قراءت کرتا ہے وہ شاق (مشقت میں ڈالنے والا) ہے، صاحب ”حدیث اور أہل الحدیث“ نے شاق کا معنی خود گھڑ کر ”فاسق“ لکھ دیا ہے! مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنی کتاب ”القاموس الوحيد“ کا ہی مطالعہ کر لیں کہ شاق کا کیا مطلب ہے؟
اس کا راوی عقیل مؤذن ابراہیم نخعی مجہول الحال ہے اسے صرف ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے (الثقات: 87/6)

جواب:
اس میں ابو خالد الأحمر بقول امام احمد بن مقبل مدلس ہے۔ (جزء القراءت للبخاري: ح 267)
أعمش مدلس ہے۔( كما تقدم جواب ص 340 2)

جواب:
یعنی امام کے پیچھے جہراً قراءت کرنا سنت نہیں ہے۔

جواب:
محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے۔( دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
یہ شخص جسے امام محمد لکھا ہوا ہے محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی ہے جو کہ مشہور کذاب ہے۔ (دیکھئے حدیث سابق: 31)

جواب:
جواب:
امام شافعی نے آخری عمر میں اس فتوے سے رجوع کر لیا تھا اور فرمایا:
لا تجزئ صلاة المرء حتى يقرأ بأم القرآن فى كل ركعة إماما كان أو مأموما كان الإمام يجهر أو يخافت
(ہر) آدمی کی نماز اس وقت تک جائز نہیں ہے یہاں تک کہ وہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھے، امام ہو یا مقتدی، امام جہر سے پڑھ رہا ہو یا خفیہ۔
(معرفة السنن والآثار للبیهقي 58/2 وسنده صحیح وقال الربيع: وهذا آخر قول الشافعي)
آخری اور ناسخ قول کو چھوڑ کر منسوخ قول پیش کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

جواب:
❀ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نماز کے پندرہ ارکان ہیں۔ کھڑا ہو (1) اور تکبیر تحریمہ (2) کہے اور سورۃ فاتحہ پڑھے (3)
(غنیۃ الطالبین مترجم ص 6)
اور رفع یدین کو سنت لکھا ہے (ص 7)
دیوبندی حضرات نہ تو سورۃ فاتحہ کو رکن مانتے ہیں اور نہ رفع یدین کو سنت، معلوم ہوا کہ شیخ صاحب کے قول کا مطلب صرف یہ ہے کہ رکن فاتحہ دل میں پڑھنے کے بعد امام کی قراءت سنے اور سمجھنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

جواب:
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
فيقرأ فى حال السر ولا يقرأ فى حال الجهر
سری حالت میں قراءت کرنی چاہیے اور جہری حالت میں قراءت نہیں کرنی چاہیے۔
(الفتاوى الكبرى لابن تيمية: 104/1)
چونکہ دیوبندی حضرات سری نمازوں میں بھی قراءت الفاتحہ کے قائل نہیں ہیں لہٰذا وہ امام ابن تیمیہ کے مخالف ہیں۔ جہری میں امام ابن تیمیہ کے قول کو ما عدا الفاتحہ پر محمول کیا جائے گا، امام ابن تیمیہ سے صدیوں پہلے امام أوزاعی رحمہ اللہ یہ فرماتے تھے:
امام پر حق ہے کہ وہ نماز شروع کرتے وقت تکبیر اولیٰ کے بعد سکتہ کرے اور سورۃ فاتحہ کی قراءت کے بغیر سکتہ کرے تا کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سورۃ فاتحہ پڑھ لیں، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ (مقتدی) اسی کے ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھے اور جلدی ختم کر لے، پھر کان لگا کر سنے۔
(کتاب القراءت للبيهقي ص 106 ح 247 سند صحیح وجزء القراءت تحقیقی 66)
امام أوزاعی کے اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے؟
(ص 353-344 تک)
جواب:
یہ وہی باتیں ہیں جن کے جوابات گزر چکے ہیں۔
❀ سورۃ فاتحہ خلف الإمام کے بارے میں آپ نے اسی مضمون میں امام أوزاعی اور امام شافعی رحمہما اللہ کے اقوال پڑھ لئے ہیں، آپ خود فیصلہ کریں کہ فاتحہ خلف الإمام کیا صرف أهل الحدیث ہی کا مسلک ہے یا امام شافعی وغیرہ بھی یہی مسلک و مذہب رکھتے تھے؟
جواب:
إدراك الركعة بإدراك الركوع مع الإمام

جواب:
اس روایت سے بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے فوراً رسول اللہ صلى الله عليه وآلہ وسلم کے ساتھ ہی سلام پھیر دیا تھا، لہٰذا ”إدراك الركعة“ کا مسئلہ اس سے ثابت کرنا صحیح نہیں ہے۔ (دیکھئے جواب ص 126 55)

جواب:
اس سے معلوم ہوا کہ زید بن وہب جو کہ کبار تابعین میں سے تھے اس بات کے قائل تھے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں ہے ورنہ وہ قضا کیوں کر رہے تھے؟ لہٰذا اس مسئلے پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔ سیدنا ابو سعید الخدري رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ
لا يركع أحدكم حتى يقرأ بأم القرآن
کوئی آدمی بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر رکوع نہ کرے۔
(جزء القراءت: 33 وسنده صحیح)
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لا يجزئك إلا أن تدرك الإمام قائما
تیری (رکعت) کافی نہیں ہے الا یہ کہ تو امام کو رکوع سے پہلے قیام میں پالے۔
(جزء القراءت: 132 تحقیقی وسنده حسن)

جواب:
اس روایت کا صحیح ترجمہ مع متن درج ذیل ہے۔
من لم يدرك الركعة فلا يعتد بالسجدة
جو (شخص) رکعت نہ پائے تو وہ سجدے کا اعتبار نہ کرے۔ (معجم الكبير 319 ح 9351)
تنبیہ:
”فاته الركوع“ والی روایت میں ابو اسحاق السبیعی مدلس ہے،( دیکھئے نور الصباح ص 137 تصنیف: حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی)

جواب:
اس مسئلے میں صحابہ کرام کے اقوال کے درمیان اور علمائے سلف کے درمیان اختلاف ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، زید بن وہب، امام بخاری وغیرہم کی تحقیق میں مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہوتی، جب صحابہ میں اختلاف ہو تو پھر مرفوع احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور یہ مرفوع حدیث عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
الزامی جواب:
❀ حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
اس حدیث کی سند میں عبد الرحمن بن ابی الزناد ایک راوی ہے جو کہ خطا کار اور مضطرب الحدیث اور ضعیف الحدیث ہے۔
(نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الإنفتاح ص 199)
طحاوی والی روایت (272/1) کا راوی بھی یہی ابن ابی الزناد ہے، کیا خیال ہے؟

جواب:
اس کے راوی یحییٰ بن ابی سلیمان کے بارے میں عینی حنفی نے کہا:
قال أبو حاتم: مضطرب، يكتب حديثه
ابو حاتم نے کہا: یہ مضطرب ہے، اس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔ (شرح سنن ابی داود: 104/4)
امام یحییٰ بن معین کے نزدیک ”يكتب حديثه“ کا مطلب یہ ہے کہ راوی ضعیف ہے، (دیکھئے الكامل لابن عدی: 222/1 243)

جواب:
اس کا راوی قرہ بن عبد الرحمن ہے، قرہ کے بارے میں عینی حنفی نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا کہ ”منكر الحديث جدا“ یہ سخت منکر احادیث بیان کرنے والا ہے۔ (شرح سنن ابی داود: 288/4)

جواب:
”بلغني“ کا مطلب یہ ہے کہ امام مالک تک یہ بات پہنچی ہے، اب پہنچانے والا کون ہے یہ معلوم نہیں ہے لہٰذا یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

جواب:
یہ روایت بھی ”بلغني“ کی وجہ سے ضعیف ہے۔

جواب:
محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے۔( دیکھئے ص 117)

جواب:
اجماع کا دعویٰ جھوٹ ہے تحقیق کے لیے دیکھئے جزء القراءت للبخاري وغیرہ، یہ کیسا اجماع ہے جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، زید بن وہب اور امام بخاری وغیرہ شامل نہیں ہیں۔
(ص 358) (جمہور فقہاء)

جواب:
”جمهور“ کے لفظ سے معلوم ہوا کہ اس مسئلے پر کوئی اجماع نہیں ہے، (نیز دیکھئے فتاوی السكي: 140/1 و فتح الباري: 19/2 قبل ح 637)

جواب:
امام بخاری وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہوتی۔ کیا خیال ہے، امام بخاری بھی غیر مقلدین میں سے تھے؟
جواب الإقتصار على الفاتحة فى الآخريين وجواز التسبيح موضعها وجواز السكوت

جواب:
معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے نزدیک امام ہو یا منفرد، دونوں پر ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب یا لازم نہیں ہے، اس لیے تو اشرف علی تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے:
مسئلہ 17۔ اگر پچھلی دو رکعتوں میں الحمد نہ پڑھے بلکہ تین دفعہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ لے تو بھی درست ہے لیکن الحمد پڑھ لینا بہتر ہے اور اگر کچھ نہ پڑھے چپکی کھڑی رہے تو بھی کوئی حرج نہیں نماز درست ہے۔ (شرح التصویر: 533/1)
( بہشتی زیور حصہ دوم ص 19 (113) فرض نماز پڑھنے کے طریقہ کا بیان)

جواب:
یہ حدیث اہل حدیث کی زبردست دلیل ہے کہ نماز کی چاروں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے، دیوبندی حضرات اس صحیح حدیث کے مخالف ہیں۔

جواب:
یہ بھی اہل حدیث کی دلیل ہے جسے دیوبندی نہیں مانتے۔

جواب:
جواب:
یہ بھی اہل حدیث کی دلیل ہے۔

تنبیہ:
معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ساتھ حدیث اور اہل حدیث کے مصنف کے ہاتھ سے وہ احادیث لکھوائی ہیں جو ان دیوبندیوں کا زبردست رد ہیں۔ والحمد لله

جواب:
المعجم الكبير للطبراني (303/9 304 ح 9313) کی اس روایت کا راوی حماد بن ابی سلیمان مدلس ہے۔ (طبقات المدلسین: 2/45) اور روایت معنعن ہے۔ حماد مذکور کا دماغ آخری عمر میں خراب ہو گیا تھا، حافظ ہیثمی نے فرمایا کہ ”حماد کی صرف وہی حدیث مقبول ہے جو اس سے شعبہ، سفیان ثوری اور (ہشام) الدستوائی نے بیان کی ہے، باقی سب اس کے اختلاط کے بعد روایت بیان کرتے ہیں۔ (دیکھئے مجمع الزوائد: 119-120/1)

جواب:
زہری مدلس ہے (دیکھئے شرح معانی الآثار: ج 1 ص 55 باب مس الفرج، هل يجب فيه الوضوء أم لا؟)
اور یہ روایت معنعن ہے لہٰذا امام طحاوی کے اصول سے مردود ہے۔

جواب:
ابو اسحاق السبیعی مدلس ہے( دیکھئے ص 125)۔ شریک القاضی بھی مدلس ہے، (دیکھئے طبقات المدلسین56/2) اور روایت معنعن ہے۔
تنبیہ:
مصنف ابن ابی شیبہ کی دوسری روایت میں ابو اسحاق اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان حارث (الأعور) کا واسطہ ہے، حارث الأعور کے بارے میں علامہ نووی نے کہا:
فإنه كان كذابا
بیشک وہ کذاب تھا۔
(نصب الراية 367/1)

جواب:
اس روایت میں حارث الأعور راوی ہے جسے ”حدیث اور اہل حدیث“ کے مصنف نے چھپا لیا ہے، حارث الأعور کذاب تھا،( دیکھئے حدیث سابق: 8)

جواب:
اس کا راوی حماد بن ابی سلیمان مدلس اور مختلط ہے اور یہ روایت اختلاط کے بعد کی ہے،( دیکھئے حدیث سابق: 4)

جواب:
دیوبندی اصول سے یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ سفیان ثوری مدلس ہیں،( دیکھئے ص 129) اور یہ حدیث معنعن ہے۔
مؤدبانہ عرض ہے کہ دیوبندیوں کے نزدیک ابراہیم نخعی کب سے حجت ہو گئے ہیں؟ امام ابو حنیفہ کے نزدیک تابعین کے اقوال و افعال حجت نہیں ہیں،( دیکھئے القول المتین ص 70، و تذکرہ النعمان ص 231 وغیرہ) میں گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآلہ وسلم آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے لیکن دیوبندی حضرات کہتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کی جگہ تسبیح پڑھنا اور خاموش رہنا بھی جائز ہے۔
معلوم ہوا کہ سنت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ فاتحہ کے بھی منکر ہیں۔
وما علينا إلا البلاغ






