مناقبِ امام ابوحنیفہؒ اور کتاب: الخیرات الحسان
سوال
کیا کتاب ’’الخیرات الحسان‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے؟ اور کیا اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال و واقعات درج ہیں؟ اس کتاب کی حیثیت کیا ہے؟ چونکہ دیوبندی حضرات نے اس کتاب کا دورانِ گفتگو حوالہ دیا ہے، جس کے بارے میں ہمیں علم نہیں تھا، براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کتاب ’’الخیرات الحسان‘‘ کا مصنف کون ہے؟
کتاب ’’الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان‘‘ حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (متوفی ۸۵۲ھ) کی تصنیف نہیں ہے۔
بلکہ اس کے مصنف ہیں:
شہاب الدین احمد بن محمد بن محمد بن علی بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی المکی السعدی الانصاری الشافعی، ابوالعباس (متوفی ۹۷۳ھ)۔
امام آلوسیؒ کا تبصرہ ابن حجر مکی کے بارے میں
امام محمود شکری بن عبداللہ بن محمود بن عبداللہ بن محمود الحسینی الآلوسی البغدادی (متوفی ۱۳۴۲ھ) ابن حجر المکی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’کیونکہ ابن حجر کی اکثر کتابیں جھوٹ کا پلندہ ہیں اور افتراء ، قولِ زور، بے اصل آراء اور دعوت الی غیر اللہ وغیرہ بدعات و ضلالات سے پر ہیں‘‘
(انوار رحمانی ترجمۃ غایۃ الآمانی، جلد ۲، صفحہ ۴۳۳)
امام آلوسیؒ کی شخصیت پر اقوال
- عمر رضا کحالہ امام آلوسیؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جمال الدین ابوالمعالی، مؤرخ، ادیب، لغوی، من علماء الدین۔۔۔‘‘
(معجم المؤلفین، جلد ۳، صفحہ ۸۱۰، ت۱۶۶۰۳) - خیر الدین الزرکلی امام آلوسیؒ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مؤرخ، عالم بالادب والدین، من الدعاۃ الی الاصلاح: وحمل علی اہل البدع فی الاسلام برسائل فعاداہ کثیرون‘‘
(الاعلام، جلد ۷، صفحہ ۱۷۲)
کتاب ’’الخیرات الحسان‘‘ کے بارے میں چند اہم نکات:
➊ اسناد کا حذف اور غیر معتبر انداز بیان
اس کتاب میں احادیث و روایات کو بغیر سند ’’قال فلان‘‘ اور ’’روی فلان‘‘ جیسے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ اہلِ علم کے نزدیک بے سند اور غیر ثابت روایات کو اس انداز میں بیان کرنا نامناسب اور قابلِ مذمت عمل ہے۔
➋ موضوع اور بے اصل روایات کا بیان
ابن حجر المکی نے متعدد من گھڑت (موضوع) اور بے اصل روایات کو یقینی انداز (صیغہ جزم) سے نقل کیا ہے تاکہ قاری ان کو صحیح اور ثابت شدہ سمجھے۔
مثال نمبر 1:
’’وعنه: ان احتیج للرأی فرأی مالک وسفیان وابی حنیفة، وهو افقههم واحسنهم وادقهم فطنة واغوصهم علی الفقه‘‘
(الخیرات الحسان، صفحہ ۴۵)
ترجمہ:
ابن مبارکؒ فرماتے ہیں: اگر رائے کی ضرورت ہو تو امام مالکؒ، سفیانؒ اور امام ابوحنیفہؒ کی آراء قابلِ قبول ہیں۔ ان میں امام ابوحنیفہؒ سب سے زیادہ فقیہ، بہتر فقیہ، باریک بین اور فقہ میں گہرائی رکھنے والے تھے۔
(سرتاج محدثین، صفحہ ۱۵۷، مترجم: عبدالغنی طارق دیوبندی)
تبصرہ:
یہ روایت تاریخ بغداد (جلد ۱۳، صفحہ ۳۴۳) میں احمد بن محمد بن مغلس الحمانی کی سند سے منقول ہے۔
- امام ابن عدیؒ نے فرمایا:
’’وما رأيت في الكذابين أقل حياء منه‘‘
یعنی میں نے جھوٹوں میں اتنا بے حیا شخص نہیں دیکھا۔
(الکامل لابن عدی، جلد ۱، صفحہ ۲۰۲) - امام دارقطنیؒ نے کہا:
’’یضع الحديث‘‘
یعنی یہ احادیث گھڑتا تھا۔
(کتاب الضعفاء والمتروکین، صفحہ ۱۲۳، ترجمہ: ۵۹) - اس راوی کو کسی محدث نے ثقہ یا صدوق قرار نہیں دیا۔
- حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں:
’’وقسم كالبخاری و أحمد بن حنبل و أبی زرعة و ابن عدی: معتدلون منصفون‘‘
یعنی امام بخاریؒ، احمد بن حنبلؒ، ابوزرعہؒ اور ابن عدیؒ (سب) اعتدال اور انصاف کے حامل تھے۔
(ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل، جلد ۲، صفحہ ۱۵۹) - سخاویؒ نے کہا:
’’وقسم معتدل كأحمد و الدارقطني و ابن عدی‘‘
یعنی ایک گروہ جیسے احمد، دارقطنی اور ابن عدی، معتدل ہیں۔
(المتکلمون فی الرجال، صفحہ ۱۳۷)
مثال نمبر 2:
’’وقال وکیع: ما رأيت أحداً أفقه منه ولا أحسن صلاة منه‘‘
(الخیرات الحسان، صفحہ ۴۸)
ترجمہ:
محدث وکیعؒ فرماتے ہیں: میں نے امام ابوحنیفہؒ سے بڑا فقیہ اور بہتر نماز پڑھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
(سرتاج محدثین، صفحہ ۱۶۳)
تبصرہ:
یہ روایت بھی تاریخ بغداد (جلد ۱۳، صفحہ ۳۴۵) میں احمد بن الصلت الحمانی کی سند سے مذکور ہے۔
اور احمد بن الصلت کو محدثین نے کذاب قرار دیا ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔
یہ محض چند نمونے ہیں، ورنہ ’’الخیرات الحسان‘‘ جیسی کتاب موضوع، بے اصل اور باطل روایات سے بھری ہوئی ہے۔
➌ معتبر حوالہ دینے کی شرائط
کسی کتاب سے حوالہ دینے کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں:
- پہلی: کتاب کا مصنف ثقہ اور صدوق ہو۔
- دوسری: کتاب مصنف تک صحیح اور ثابت ہو۔
- تیسری: مصنف سے لے کر اصل راوی یا قائل تک سند صحیح یا حسن لذاتہ ہو۔
اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اس کتاب کا حوالہ دینا ناقابل قبول اور مردود ہوتا ہے۔
➍ کتاب کا مواد اور اس کا اعتبار
ابن حجر مکی (المبتدع) کی کتاب ’’الخیرات الحسان‘‘ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مناقب سے متعلق اکثر و بیشتر روایات غیر ثابت، موضوع اور بے اصل ہیں۔ اس بنا پر اس کتاب کو حجت کے طور پر پیش کرنا درست نہیں۔
ھذا ما عندی والله أعلم بالصواب