کبیرہ گناہ، فسق اعتقادی اور بدعت
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام – مکمل کتاب کا لنک

کبیرہ گناہ: ایک مکمل شرعی وضاحت

کبیرہ گناہ کی تعریف

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر جلیل القدر علماء کبیرہ گناہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:

’’ایسا گناہ جس کے ارتکاب پر دنیا میں حد، سخت وعید، دنیا و آخرت میں لعنت یا غضب کا ذکر ہو یا آخرت میں سخت عذاب کی دھمکی ہو‘‘

کبیرہ گناہوں کی معافی کا طریقہ

– کبیرہ گناہ نماز، رمضان کے روزے، قیام اللیل یا عمرہ کرنے سے معاف نہیں ہوتے۔
– ان کی معافی صرف **توبہ و استغفار** سے ممکن ہے۔
– اگر گناہ دوسرے انسانوں کے حقوق سے متعلق ہو، تو **توبہ کے ساتھ ساتھ حقوق کی ادائیگی** یا ان سے **معافی** بھی ضروری ہے۔

انسانی حقوق کی ادائیگی سے متعلق حدیث

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس آدمی پر بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا اس کی عزت و آبرو سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کوئی حق ہو تو اسے چاہیے کہ آج ہی دنیا میں اس کا ازالہ کر کے اس حق سے عہدہ برا ہو جائے۔ قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس دن کسی کے پاس دینار و درہم نہیں ہوں گے۔ اگر اس کے پاس عمل صالح ہوں تو اس کے ظلم کے برابر اس سے لے لیے جائیں گے۔ اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو صاحب حق کی برائیاں اس پر لاد دی جائیں گی‘‘
*(بخاری، کتاب المظالم باب من کانت لہ مظلمہ 2449)*

 مفلس کی حقیقت

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا لیکن وہ اس حال میں آئے گاکہ کسی کو اس نے گالی دی ہو گی، کسی پر بہتان تراشی کی ہو گی۔ کسی کو مارا پیٹا ہو گا۔ پس ان (تمام مظلوموں) کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔ پس اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور اس کے ذمے دوسروں کے حقوق باقی رہے تو ان کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘
 *(مسلم، البر، باب تحریم الظلم2581)*

کبیرہ گناہ پر عذاب کا معاملہ

– کبیرہ گناہوں پر عذاب دینا **اللہ تعالیٰ کی مشیت** پر منحصر ہے۔
– چاہے تو **معاف** فرما دے اور جنت میں داخل کر دے، چاہے تو **عذاب** دے۔
– مگر یہ عذاب **ہمیشہ** کے لیے نہیں ہوگا۔ آخر کار نجات ملے گی۔
– کبیرہ گناہ کرنے والے **رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت** سے جہنم سے نجات پائیں گے۔

شفاعت کے متعلق احادیث

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’میری امت میں جو لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے میری شفاعت ان کے لیے ہو گی‘‘
 *(ترمذی، صفۃ القیامۃ باب ما جاء فی الشفاعہ 2435)*

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’محمد کی شفاعت سے ایک قوم جہنم سے نکلے گی اور جنت میں داخل ہو گی۔ ان کا نام جہنمی ہو گا‘‘
 *(بخاری، الرقاق باب صفۃ الجنہ والنار 6566)*

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’لوگوں میں میری شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو دل کے اخلاص سے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرے‘‘
 *(بخاری، الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار 6570)*

فسق اعتقادی: گمراہ فرقوں کا بگاڑ

کبیرہ گناہوں میں **اعتقادی فسق** سب سے زیادہ خطرناک ہے، جو گمراہ فرقوں جیسے **خوارج، قدریہ، مرجئیہ** وغیرہ کے بدعتی اقوال سے پیدا ہوتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں تاویل

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

**”وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ”** *(سورہ الاعراف 180)*

’’اور اللہ کے سب اچھے نام ہیں ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ان لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی اختیارکرتے ہیں عنقریب یہ لوگ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔‘‘

 سیدہ معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ کی روایت

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی سے پوچھا: "اللہ کہاں ہے؟” اس نے کہا: آسمان پر۔ پوچھا: "میں کون ہوں؟” بولی: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کو آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے”۔
*(مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ 537)*

قرآن میں سات مقامات پر اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

**”قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ”** *(سورہ ص 75)*
’’فرمایا اے ابلیس تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے دونوں ہاتھوں سے بنایا‘‘

سلف صالحین کا موقف

– **اللہ کے ہاتھ، چہرہ، آنکھ** وغیرہ جیسی صفات پر ایمان لانا واجب ہے۔
– **تشبیہ یا تاویل** سے گریز کرنا چاہیے۔
– سید مودودی کی تفہیم القرآن میں موجود تاویلات غلط ہیں جیسے:
– **عرش کی تاویل** کو اللہ کی سلطنت یا مرکز تجلیات کہنا۔
– **دونوں ہاتھوں** کا مطلب دو صفاتِ تخلیق قرار دینا۔
– **روح** کو صفاتِ الٰہی کا عکس یا پرتو کہنا۔

یہ تاویلات سلف کے نزدیک **فسق اعتقادی** اور گمراہی ہیں۔

بدعت: دین میں نئی باتوں کی ایجاد

دین سازی کا اختیار صرف اللہ کو ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

**”الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي”**  *(سورۃ المائدہ 3)*

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی‘‘۔

– دین اسلام مکمل ہے۔
– دین میں کسی نئی بات کا اضافہ حرام ہے۔
– دین **توقیفی** ہے، یعنی صرف وہی عمل دین ہے جو قرآن یا سنت سے ثابت ہو۔

 بدعت کی اقسام

1. **اعتقادی بدعت** (مثلاً گمراہ فرقوں کے عقائد)
2. **عبادتی بدعت** (مثلاً:- عید میلاد النبی – 15 شعبان کی مخصوص عبادات – اجتماعی ذکر کی بدعات)

 بدعت کا گناہ زنا اور چوری سے بڑا

– زانی اور چور کو اپنے عمل کا گناہ ہونے کا احساس ہوتا ہے، وہ توبہ کرتے ہیں۔
– بدعتی اپنی بدعت کو دین سمجھتا ہے، اس لیے توبہ نہیں کرتا (الا ما شاء اللہ)۔

 بدعت پر احادیث

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

’’جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ بات مردود ہے‘‘
*(بخاری، الصلح 2697۔ مسلم، الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلہ 1718)*

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’بد ترین کام دین میں نئی چیز کا ایجاد کرنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘
*(مسلم، الجمعہ۔ باب تخفیف الصلاۃ والخطبہ 867)*

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’جس نے مدینہ میں کوئی بدعت جاری کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن نہ اس کے فرض قبول ہوں گے نہ نفل‘‘
*(بخاری، ابواب فضائل المدینۃ: 1867۔ مسلم، الحج، باب فضل المدینہ 1366)*

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1