کاہن اور کہانت کا اسلامی حکم: تین قسموں کی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

کہانت کیا ہے اور کاہنوں کے پاس جانا کیسا ہے؟

کہانت کی تعریف

"کہانت” (کہانۃ) لفظ "تَکَہَّنَ” کے مادہ سے نکلا ہے جو "فعالۃ” کے وزن پر ہے۔ اس کا مطلب ہے:

◈ اندازے لگانا
◈ تکہ بازی یا اٹکل پر مبنی باتیں کرنا
◈ ایسے ذرائع سے حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرنا جن کی کوئی حقیقی بنیاد نہ ہو

زمانۂ جاہلیت میں کچھ لوگوں نے کہانت کو بطور پیشہ اپنا لیا تھا۔ ان کا رابطہ ان شیطانوں سے ہوتا تھا جو آسمان سے چوری چھپے باتیں سنتے اور پھر ان کاہنوں کو آ کر بتاتے۔ یہ کاہن ان شیطانی باتوں میں اپنی طرف سے سو سو جھوٹ شامل کر کے لوگوں کو بتاتے۔ ان درجنوں جھوٹوں میں سے اگر ایک بات بھی درست نکل آتی تو لوگ ان پر یقین کرنے لگتے اور:

◈ باہمی فیصلوں کے لیے ان سے رجوع کرتے
◈ مستقبل کے حالات جاننے کے لیے ان سے رہنمائی لیتے

اس لیے کاہن وہ شخص ہے جو مستقبل کی غیبی باتوں کی خبر دے۔

کاہنوں کے پاس جانے والوں کی تین اقسام

پہلی قسم: سوال کرے مگر تصدیق نہ کرے

ایسا شخص جو کاہن کے پاس جائے اور اس سے کوئی سوال کرے لیکن اس کی بات کی تصدیق نہ کرے:

یہ عمل بھی حرام ہے
ایسے شخص کی 40 دن تک نماز قبول نہیں ہوتی

جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے:

((مَنْ اَتٰی عَرَّافًا فَسَاَلَه عَنْ شَیْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَه صَلٰوةَُ اَرْبَعِینَ لَیْلَةَُ))
(صحیح مسلم، السلام، باب تحریم الکهانة واتیان الکهان، ح:۲۲۳۰)

ترجمہ:
"جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرے، تو اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں ہوتی۔”

دوسری قسم: سوال کرے اور تصدیق بھی کرے

جو شخص کاہن کے پاس جائے اور:

اس سے سوال کرے
پھر اس کی بات کو سچ مانے

تو یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کفر ہے، کیونکہ اس نے کسی کے علم غیب کے دعوے کو سچ مانا۔

ایسا شخص قرآن کی اس آیت کی تکذیب کرتا ہے:

﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ﴾
(سورة النمل، آیت 65)

ترجمہ:
"کہہ دو! جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔”

اسی مفہوم کو نبی ﷺ کی ایک حدیث یوں بیان کرتی ہے:

«مَنْ أَ تٰی کَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ»
(جامع الترمذی، الطهارة، باب ما جاء فی کراهیة اتیان الحائض، ح: ۱۳۵،
سنن ابن ماجه، الطهارة، باب النهی عن اتیان الحائض، ح: ۶۳۹،
اور صحیح الالبانی، الارواء، ح: ۲۰۰۶)

ترجمہ:
"جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور جو کچھ وہ کہے اس کی تصدیق کرے، تو اس نے اس دین کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا جو محمد ﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔”

تیسری قسم: تحقیق اور ردِ باطل کے لیے جانا

ایسا شخص جو کاہن کے پاس جائے:

اس لیے کہ وہ اس کا امتحان لے
لوگوں کے سامنے اس کے جھوٹ اور فریب کو ظاہر کرے

تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

مثال:
جب ابن صیاد نبی ﷺ کے پاس آیا، تو آپ ﷺ نے دل میں ایک بات چھپائی اور اس سے پوچھا کہ وہ یہ بتائے کہ آپ نے اپنے دل میں کیا بات چھپائی ہے؟ اس نے کہا: "الدُخُّ” یعنی اس کا اشارہ سورۃ الدخان کی طرف تھا۔ نبی ﷺ نے اس کے جواب پر فرمایا:

((اِخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوْا قَدْرَکَ))
(صحیح البخاري، الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات، ح: ۱۳۵۴
اور صحیح مسلم، الفتن، باب ذکر ابن صیاد، ح: ۲۹۲۴)

ترجمہ:
"دفع ہو جا! تو اپنی حیثیت سے ہرگز آگے نہیں بڑھ سکتا۔”

خلاصہ

کاہن کے پاس جانے والے افراد کی تین حالتیں ہوتی ہیں:

سوال کرے، تصدیق نہ کرے، اور تحقیق بھی نہ کرے
◈ یہ حرام ہے
چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی

سوال کرے اور تصدیق کرے
◈ یہ اللہ کے ساتھ کفر ہے
ایسے شخص کو توبہ کرنی چاہیے، ورنہ وہ کفر پر مرے گا

تحقیق و تنقید کے لیے جائے
جائز ہے
لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے ہو

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1