کانوں کا مسح
«عن عبدالله بن عباس رضي الله عنهما وذكر الحديث، وفيه ثم قبض قبضة من الماء ثم نفض يده ثم مسح بها رأسه وأذنيه .. إلخ»
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے پھر آپ نے ایک چلو پانی لے کر اسے بہایا (پھر) سر اور کانوں کا مسح کیا … الخ
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (مرفوعاً) بیان کیا ہے۔ «سنن ابی داود» : 1/120 المجتبائیہ ح 137 حدیث
اس کی سند حسن ہے، اسے امام حاکم نے بھی مستدرک 147/1 میں روایت کیا ہے علاوہ ازیں کتب احادیث میں اس کے متعدد شواہد ہیں۔
فوائد:
(1)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سر کے ساتھ کانوں کا مسح بھی کرنا چاہیے۔
(2)صحیح و حسن احادیث میں سر اور کانوں کے مسح کا ذکر ہے لیکن گردن کے مسح کا ذکر نہیں۔
(3)التلخیص الحبیر (ج ا ص 93 ح 98) میں ابوالحسین بن فارس کے جزء سے بلا سند عن فلیح بن سلیمان عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما منقول ہے:
«ان نبي ﷺ قال: من توضأ ومسح بيديه على عنقه، وقي الغل يوم القيامة»
جس نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے گردن کا مسح کیا روز قیامت گردن میں طوق پہنائے جانے سے بچ جائے گا۔
اس روایت کو اگرچہ ابن فارس نے: ”هذا ان شاء الله حديث صحيح“ کہا، مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تردید کرتے ہوئے لکھا ہے: ”بين ابن فارس و فليح مفازة، فينظر فيها“ ابن فارس اور فلیح کے درمیان وہ بیابان ہے جس میں پانی نہیں ہے، پس اس کی ابن فارس سے فلیح تک سند دیکھنی چاہیے (یہ روایت بلا سند ہے چونکہ دین کا دارومدار اسانید پر ہے لہذا یہ بے سند روایت سخت مردود ہے)۔
(4)چالیس حدیثیں کے مصنف محمد الیاس صاحب نے یہ جھوٹ لکھا ہے کہ ”حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخیص الحبیر میں اس روایت کو صحیح لکھا ہے۔
(5)محمد الیاس تقلیدی صاحب نے یہ بھی جھوٹ لکھا ہے:
”علامہ شوکانی نے «نیل الاوطار» میں بھی ایسا ہی (یعنی اسے صحیح) لکھا ہے۔“ [چالیس حدیثیں ص: 6]
حالانکہ «نیل الاوطار» میں اس پر جرح موجود ہے۔ [ج 164 طبع بیروت لبنان]
(6)نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمامہ پر مسح کیا ہے [صحیح البخاری ج ا ص 33 ح 205] اس کے برعکس ھدایہ ج ا ص 44 میں لکھا ہوا ہے کہ عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں ہے إنا لله وإنا إليه راجعون ہدایہ کا یہ فتوی صحیح بخاری کی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں مردود ہے۔