کافر یا فاحشہ کے مال سے مسجد بنانے کا حکم
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسجد کے اوپر کنجر (یعنی رنڈی) اور کافر شخص کا مال لگانا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ جائز ہے یا ناجائز؟ اس سوال کا جواب کراچی کے ایک رسالہ نے یہ دیا ہے۔
’’جائز ہے، شرعاً کوئی قباحت نہیں، اگر کوئی کافر یا رنڈی فاحشہ عورت اپنے پیسے سے کنواں کھدوائے تو برابر اس کا پانی پینا جائز ہے یا مسجد بنوا دے تو برابر اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ کنواں کھدوانے یا مسجد بنوانے سے اسے کچھ فائدہ اخروی ہو گا، اس کے عوض بوجہ کفر و شرک دنیا میں ہی دے دیا جائے گا۔‘‘

الجواب:

یہ فتویٰ سر اسر غلط اور خلاف شریعت ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
«مَهْرُ الْبَغّيِ خبيث»
’’رنڈی فاحشہ کی کمائی حرام ہے۔‘‘
مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے۔ جہاں جنبی داخل نہیں ہو سکتا اور نہ حائضہ عورت جا سکتی ہے۔ پھر اس پر ناپاک مال لگانا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ ترغیب میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من اكتسب ما لا مان مأثم فوصل به رحمه أو تصدق به أو أنفقه فى سبيل اللّٰه جمع ذالك كله جميعا نقذف فى جهنّم»
’’جس شخص نے گناہ کے ذریعے مال کمایا، پھر اس کے ساتھ صلہ رحمی کی ، یا اس کو صدقہ کیا، یا اللہ کے راستے میں خرچ کیا تو اس سب کو جمع کر کے مع اس شخص جہنم میں پھینکا جائے گا۔‘‘
اگر کنجر کے مال حرام سے مسجد بن کر مسجد کا حکم رکھتی تو اس کے لئے موجب جنت ہوتی، مگر اس حدیث سے ظاہر ہے کہ وہ انفاق فی سبیل اللہ موجب عذاب ہوا، جس سے ظاہر ہئے کہ و ہ مسجد، مسجد کا حکم نہیں رکھتی، بلکہ ناپاک ہے۔ جس کو گرانے کا حکم ہے، تفسیر مدارک میں ہے۔
كل مسجد بني مباهاة اورياء وّسُمعة او لغرض سويٰ ابتغاء وجه اللّٰه او بمالٍ غَير طيّب فهو لا حق بمسجدِ الضرار
’’جو مسجد فخر یا ریاء اور شہرت کے لیے یا اللہ کی رضا کے سوا کسی اور غرض کے لیے یا مال حرام سے تعمیر کرائی گئی ہو، وہ مسجد ضرار کے حکم میں ہے۔‘‘
یعنی جیسے مسجد ضرار مسجد کا حکم نہیں رکھتی۔ ترغیب و ترہیب میں یہ حدیث ہے کہ:
انه من أصاب مالاً من حرام فليس منه جلبَاباً يعني قيصالم تقبل صلوٰة حتيٰ بنجي ذالك الجلباب عنه
’’جس شخص نے مال حرام سے قمیص بنوا کر پہنی تو جب تک وہ قمیص بدن سے اتاری نہ جائے گی، تب تک اس شخص کی نماز قبول نہ ہو گی، حام حکمی نجاست ہے۔‘‘
یعنی اس سے جو چیز تیار ہو گی، وہ نجس ہو گی، تو پھر نجس جگہ میں نماز کیسے ہو سکتی ہے۔ زانیہ کا کسب حرام ہے۔ تو اس مال کا مکسوبہ بھی حرام ہے، مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے۔
مهر البغّي خبيثٌ اي حرامٌ اجماعاً لانها تاخذه عوضا من الزنا المحرّم ووسلة الحرام وسماه مهرا مجازًا لانه فى مقابلة البُضْع
’’مہر زانیہ کا خبیث ہے۔ یعنی حرام ہے۔ اجماعا کیوں کہ زانیہ نے زنا کے عوض لیا ہے جو حرام ہے، وسیلہ حرام کا حرام ہوتا ہے۔ ‘‘
شیخ عبد الحق دہلوی شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:
انه حرام قطعاً
’’زانیہ کی اجرت قطعاً حرام ہے۔‘‘
جب کوئی شخص فی سبیل اللہ مسجد بناتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہو جاتی ہے، جب تک اللہ کی ملک نہ ہو گی، وہ مسجد کا حکم نہیں رکھے گی، پس مال حرام سے بنائی ہوئی مسجد اللہ کا ملک نہیں ہے، کیوں کہ حدیث میں ہے:
«إن اللّٰه طيّب لا يقبل إلا طيّبا»
’’اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز قبول کرتا ہے۔‘‘
بلکہ مؤطا میں، پاک مال سے صدقہ کرنے کے بارے میں … یہ الفاظ آئے ہیں
انما يضعها فى كف الرحمٰن
’’جس نے پاک مال سے صدقہ دیا اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں رکھ دیا۔‘‘
کنجری کا خبیث اور حرام مال اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا، تو وہ مسجد اللہ کی نہ ہو گی۔
میں اپنی تائید میں ایک شہرہ آفاق اور مقبول آنام بزرگ ہستی کا فتویٰ پیش کرتا ہوں، یہ وہ ہیں جن کے والد بزرگوار جناب زبدۃ العارفین حضرت مولانا عبد اللہ الغزنوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن کے ہاتھ پر مولانا عبد الوہاب دہلوی مرحوم نے خود بھی بیعت کی تھی اور بیعت کی ہدایت بھی کی تھی، فتوییٰ فارسی میں ہے جس کا ترجمہ ذیل ہے۔

سوال:

… علماء اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک مسجد بہت مدت سے گری ہوئی ہے۔ صرف سفید زمین باقی تھی اس جگہ ایک فاحشہ زانیہ عورت نے اپنے زنا کے مال سے اس حیلہ کے ساتھ مسجد تیار کی، کہ روپیہ کسی مسلمان یا ہندہ سے بغیر سود کے قرض لیوے ، بعد ازاں قرض مذکور کو اپنے حرام کے روپیہ سے ادا کرے، کیا جائز ہے یا نہیں؟ اور ایسی مسجد تیار شدہ میں نماز گزارنی بلا کراہت شرعی جائز ہو گی یا نہیں؟ اور اس مسجد میں پانچوں نمازوں کے ادا کرنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں جو پاک اور حلال مال سے بنائی گئی ہیں، ادا کرنے کے برابر ہو گا یا نہیں؟ اور بنانے والے کو ثواب آخرت مرتب ہو گا یا نہیں؟ اور ایسی مسجدوں کو جو عورت مذکورہ نے بنائی ہے، گو اس کے بدلہ میں پاک و حلال مال سے اس جگہ مسجد بنائی جائے یا نہ؟

جواب:

اگر لباس کا کچھ حصہ یا سارا لباس ناپاک ہو اس میں نماز جائز نہیں، اسی طرح اگر مسجد کا کچھ حصہ یا ساری مسجد حرام مال سے بنائی گئی ہو تو وہ حکم مسجد کا نہیں رکھتی، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جس نے دس درہم کا کوئی کپڑا خریدا، اور ان میں ایک درہم حرام کا ہے تو جب تک وہ کپڑا اس پر رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا، پھر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کانوںمیں انگلیوں کو ڈال کر کے کہا اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیث فرماتے ہوئے نہ سنا ہو تو خدا کرے، میرے یہ دونوںکان بہرے ہو جائیں، اور اس مسجد کے بنانے والے کو کچھ ثواب نہیں، بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ پاک قبول نہیں کرتا مگر پاک کو، اور چونکہ وہ مسجد، حکم مسجد نہیں رکھتی تو اس میں نماز پڑھنا دوسری پاک مسجدوں میں نماز پڑھنے کے برابر کیوں کر ہو گا، اور اس مسجد کو گرا کر اس کی تعمیر کرانا مصداق ’’جاء الحق وزهق الباطل‘‘ (حق آگیا اور باطل گیا) کا ہو گا۔ اور حیلہ سازی سے حرام کو حلال کرنا موجب غضب الٰہی کا ہے، جیسا کہ اصحاب السبت پر نازل ہوا۔ تو ان کو بندر بنا دیا، اور جو شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولوی عبد الحئی لکھوی کا اس بارہ میں فتویٰ ہے وہ اس پر محمول ہے کہ وہ قرض مال حرام سے فائدہ اٹھانے کے واسطے حیلہ نہ ہو، بلکہ بوجہ نہ موجود ہونے کے مبلغات کے کسی سے قرض لیا ہو، اتفاقاً وہ قرض مال حرام سے ادا کرنے پڑے نہ یہ کہ مال حرام سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے اس قرض کو حیلہ بنا دے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (حررہ عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ)
نیز واضح ہو کہ مجوعۃ الفتاویٰ ص ۱۱ میں بھی ایک سوال درج ہے کہ فاحشہ عورت کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز جائز ہے یا نہیں؟ اس کا جواب بھی احادیث لکھ کر یہ دیا ہے کہ:
’’نماز در مسجد بغیہ جائز نیست کہ مال خبیث و حرام است ولباس حرام موجب عدم قبول نماز است‘‘ پھر امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے یہ نقل کیا ہے کہ کپڑے مغصوب اور مکان مغصوب میں نماز صحیح نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس مسجد کو حلال مال سے خریدے تب بھی حرمت رفع نہ ہو گی، اور آیت کے خلاف ہے۔
﴿وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ ﴾
’’نہ بدلو پلید کو بدلے پاک کے،‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عارف باللہ نے زانیہ کی تعمیر کرائی ہوئی مسجد میں نماز ناجائز قرار دی ہے۔ اور اس کو مسجد کے حکم سے خارج کر دیا ہے، یہ فتویٰ عین تقویٰ پر مبنی ہے۔(مولانا) عبد القادر حصاروی ، الاعتصام لاہور جلد نمبر ۱۵، ش نمبر ۷)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے