سوال
دلائل ایمان کے مقابلے میں کافروں کا کردار اور رویہ کیسا تھا ؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایمان کے دلائل اور کفار کا رویہ
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بے شمار دلائل ہیں۔ جتنی اللہ کی مخلوق ہے اتنے ہی دلائل اس کی ذات پر ہیں۔ ہر مخلوق اپنے خالق کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔ لیکن کافر اور منکر ان دلائل سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتے کیونکہ ان کے دل بیمار ہوتے ہیں اور وہ ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔
کافر کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے منہ موڑ لیتا ہے اور باطل دلائل کی بنیاد پر جھگڑتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَّرِيدٍ (٣)﴾ (الحج)
’’ بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔‘‘
کافروں کا غرور اور انکار
کفار اللہ کی نشانیوں کو بڑے گھمنڈ کے ساتھ جھٹلا دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ (١٤)﴾ (النمل)
’’انہوں نے سرا سر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔‘‘
حق و باطل کو خلط ملط کرنا
کافر ہمیشہ حقیقت کو گڈمڈ کر کے بات کو الجھانا چاہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (٤٢)﴾ (البقرۃ)
’’ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائو اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔‘‘
اللہ کے راستے سے روکنا
کفار کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلَالًا بَعِيدًا (١٦٧)﴾ (النساء)
’’ جو لوگ اس حق کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں وہ یقینًا گمراہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں۔‘‘
اندھی تقلید کی راہ
کافروں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ روشن اور ناقابلِ تردید دلائل کے باوجود ایمان قبول نہیں کرتے۔ وہ صرف اپنے آبا و اجداد کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (١٠٤) ﴾ (المائدۃ)
’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس قانو ن کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آئو پیغمبر کی طرف تو جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کار کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے (کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے ) خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستے کی انہیں خبرہی نہ ہو۔‘‘
شک و شبہات کے کارخانے
کفار کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ وہ شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان ہدایت سے محروم رہیں۔ یہی رویہ بنی اسرائیل نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اپنایا تھا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّـهَ جَهْرَةً (٥٥)﴾ (البقرۃ)
’’ یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں……‘‘
غیر مرئی چیزوں کو مان لینا
یہی کفار عقل کو مانتے ہیں، ہوا کو تسلیم کرتے ہیں، کشش ثقل کو مانتے ہیں اور ریڈیائی لہروں کو بھی مانتے ہیں حالانکہ انہوں نے ان کو دیکھا نہیں۔ صرف ان کے اثرات کو دیکھ کر ان کا اقرار کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ انصاف کے ساتھ غور کریں تو پوری کائنات اللہ کے وجود پر گواہی دیتی ہے۔
دیدارِ الٰہی کا واقعہ
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی جس سے وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔
قرآن میں ارشاد ہے:
﴿ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ (١٤٣)﴾ (الاعراف)
[مکمل آیت کا ترجمہ: ’’ جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ ’’اے رب مجھے اپنا دیدار کرا دیجیے کہ میں تجھے دیکھوں۔‘‘ فرمایا: ’’ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، ہاں ذرا سامنے پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا۔‘‘ چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا او رموسیٰ غش کھا کر گر پڑا، جب ہوش آیا تو بولا: پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلے ایمان لانے والا میں ہوں۔‘‘]
کفار کے لیے غور و فکر کا پیغام
جس طرح ڈاکٹرز، انجینئرز اور محققین کی باتوں پر سب لوگ اعتماد کرتے ہیں حالانکہ وہ ان چیزوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے بلکہ تحقیق کے ذریعے جانتے ہیں، اسی طرح اگر کفار اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ دیں تو وہ بھی انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات سے اللہ کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔
انبیاء سب سے زیادہ سچے اور پارسا لوگ ہیں اور ان کی سچائی کی سب سے بڑی دلیل وہ معجزات اور کھلی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہیں۔