سوال
ایک شخص نے مجھے کہا کہ میں آپ کے ایک لاکھ روپے کاروبار میں لگاؤں گا اور آپ کو ہر ماہ تیس ہزار روپے دوں گا، چاہے نفع ہو یا نقصان۔ کیا یہ شرعی طور پر درست ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
طے شدہ نفع کی صورت میں:
اگر آپ کی اصل رقم (ایک لاکھ روپے) پر پہلے سے طے شدہ نفع (تیس ہزار روپے ماہانہ) دینا طے ہو، تو یہ سود کے زمرے میں آتا ہے اور شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔
“كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا”
’’ہر قرض جو نفع کا سبب بنے وہ سود کی اقسام میں سے ہوتا ہے‘‘۔
صحیح شرعی طریقہ:
نفع طے کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ کاروبار میں ہونے والے اصل نفع پر فیصد کے حساب سے شراکت داری کی جائے، مثلاً یہ طے ہو کہ نفع کا 70 فیصد کاروبار کرنے والے کے پاس ہوگا اور 30 فیصد آپ کو ملے گا۔
اس طرح نفع کی مقدار کاروبار کی کارکردگی کے مطابق کم یا زیادہ ہو سکتی ہے، اور یہ شرعاً جائز ہے۔
نقصان کی صورت میں دونوں فریقوں کو اس کا بوجھ اٹھانا ہوگا، جیسا کہ شراکت کے اصول کے مطابق ہوتا ہے۔