اللہ تعالیٰ کے وجود پر عقلی دلائل
ابتدائی وضاحت
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار تاریخ کے ہر دور میں بہت کم لوگوں نے کیا ہے۔ زیادہ تر لوگ اللہ کے وجود کو مانتے ضرور تھے مگر اس کے ساتھ شرک کرتے چلے آئے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ﴾ (یوسف: 106)
‘‘اکثر لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔’’
دہریت کی حقیقت
اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار جہالت کی انتہا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی شخص اپنی عقل سے بالکل محروم ہوجائے، ورنہ کوئی بھی سمجھدار انسان کائنات کے خالق کا انکار نہیں کرسکتا۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں جن قوموں کا ذکر ہے، وہ سب مشرک تھیں، دہریہ یا ملحد نہیں تھیں۔ ان قوموں کے پاس اللہ کے وجود کا انکار کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ سورہ ابراہیم میں فرمایا:
﴿قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِى ٱللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ﴾ (ابراہیم: 10)
‘‘رسولوں نے فرمایا: کیا اللہ کے بارے میں شک ہوسکتا ہے جو زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والا ہے؟’’
عقل کی روشنی میں
انسان جب کسی معمولی چیز کو دیکھتا ہے تو فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ کسی کاریگر کی بنائی ہوئی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی عظیم کائنات—زمین و آسمان، سورج و چاند، ستارے، پہاڑ، دریا، سمندر اور باغات—بغیر کسی خالق کے خودبخود وجود میں آجائیں؟ ایسا سوچنا بھی عقل کے منافی ہے۔
واقعہ امام ابو حنیفہؒ اور دہریہ
عباسی دور میں ایک دہریہ آیا جو اللہ کے وجود کا انکار کرتا تھا۔ خلیفہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو بلایا۔ امام صاحب دیر سے پہنچے تو وجہ پوچھی گئی۔ آپؒ نے فرمایا کہ دجلہ کنارے لکڑیاں بکھری ہوئی تھیں، اچانک وہ خود بخود جڑ کر ایک کشتی بن گئیں اور میں اس میں سوار ہو کر یہاں آیا۔ دہریہ فوراً بولا: یہ تو محض بے وقوفی کی بات ہے! لکڑیاں کبھی خود بخود کشتی نہیں بن سکتیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا: اے احمق! جب ایک چھوٹی کشتی بغیر بنانے والے کے وجود میں نہیں آسکتی تو یہ عظیم کائنات بغیر خالق کے کیسے بن گئی؟ اس جواب پر دہریہ لاجواب ہوگیا۔
خلاصہ
اللہ تعالیٰ کے وجود پر کائنات کا ذرہ ذرہ گواہ ہے۔ انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو عقل کا دشمن ہو۔ بڑے بڑے سائنسدانوں نے بھی اپنی تحقیقات اور مشاہدات کے بعد یہ تسلیم کیا کہ اللہ موجود ہے۔ اس موضوع پر ‘‘God is’’ کے نام سے ایک کتاب لکھی گئی ہے جس کا اردو ترجمہ ‘‘خدا ہے’’ کے نام سے موجود ہے۔
دہریوں کا انکار اور ان کی حقیقت
ضد اور ہٹ دھرمی
اگرچہ اللہ تعالیٰ کے وجود کی نشانیاں پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، مگر کچھ لوگ اپنی ضد اور خواہشات کی پیروی میں اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں فرمایا:
﴿وَجَحَدُوا۟ بِهَا وَٱسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا﴾ (النمل: 14)
‘‘ان کے دلوں نے تو موسیٰ علیہ السلام کی صداقت کا یقین کرلیا تھا مگر ظلم اور تکبر کی وجہ سے انکار کیا۔’’
اسی طرح آج کے دہریے بھی حقیقت کو دل سے جانتے ہیں، مگر غرور اور خواہشات کے سبب زبان سے انکار کرتے ہیں۔
سائنسی بنیاد پر دلائل کی ضرورت
ایسے لوگوں کے لیے محض نقلی دلائل کافی نہیں ہوتے، بلکہ سائنسی طرز پر مثالیں دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے تاکہ عقل رکھنے والے بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ اسی مقصد سے چند سائنسی بنیادوں پر دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
دلیل نمبر 1: پانی کا نظام
قرآن کریم میں فرمایا:
﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍۢ فَأَسْكَنَّـٰهُ فِى ٱلْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍۭ بِهِۦ لَقَـٰدِرُونَ﴾ (المؤمنون: 18)
‘‘ہم نے آسمان سے ایک خاص اندازے کے مطابق پانی نازل کیا اور اسے زمین میں ٹھہرایا، اور ہم چاہیں تو اسے غائب کرسکتے ہیں۔’’
وضاحت
ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اتنا پانی نازل فرمایا جو قیامت تک انسانوں اور جانداروں کے لیے کافی ہے۔
یہی پانی سمندروں، دریاؤں اور زیر زمین ذخائر میں جمع ہوگیا۔
پہاڑوں، چشموں، نہروں اور بارشوں کے ذریعے یہی پانی گردش کرتا رہتا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تخلیق کے آغاز سے آج تک اس پانی میں نہ کمی ہوئی اور نہ ہی اضافہ کی ضرورت پیش آئی۔
سائنسی پہلو
سائنس بتاتی ہے کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کے امتزاج سے بنتا ہے۔ ماضی میں ان گیسوں کے ملاپ سے زمین پر سمندر اور پانی کے عظیم ذخائر وجود میں آئے۔ آج بھی یہی دونوں گیسیں فضا میں موجود ہیں، لیکن وہ اس بڑے پیمانے پر آپس میں نہیں ملتیں کہ بار بار زمین پر بے حساب پانی برسنے لگے۔
آخر کون ہے جو ان گیسوں کو ایک خاص وقت پر ملاتا ہے اور آج انہیں زیادہ مقدار میں ملنے سے روکے ہوئے ہے؟
پانی کے بخارات سے آکسیجن اور ہائیڈروجن الگ کیسے ہوجاتے ہیں؟
یہ سب کچھ اندھے اور بے شعور مادے کے بس کی بات نہیں۔ اس پس پردہ ایک قادرِ مطلق ہستی ہے جو اس نظام کو کنٹرول کررہی ہے، اور وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔
نتیجہ
ان دہریوں کے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں۔ بالآخر وہ یہی کہہ کر بات ختم کرتے ہیں کہ ‘‘ہمیں نہیں معلوم یہ سب کیسے ہے۔’’ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ بات ان کی شکست اور لاجوابی کا اعتراف ہے۔
دلیل نمبر 2: انسانی جسم کی تخلیق
محترم ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب اپنی کتاب انسان، کائنات اور قانونِ فطرت (صفحہ 110–111) میں لکھتے ہیں:
نطفہ اور جراثیم
مرد کے نطفہ کے ایک مکعب سینٹی میٹر میں تقریباً ڈھائی کروڑ جرثومے (sperms) پائے جاتے ہیں۔
ایک مرتبہ کے اخراج میں عموماً تقریباً پچاس کروڑ جراثیم موجود ہوتے ہیں۔
ان میں سے ہر ایک میں ایک مکمل انسان بننے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب میں سے صرف ایک ہی جرثومہ عورت کے بیضے میں داخل ہوتا ہے، اور تخلیق کا آغاز کرتا ہے۔
عورت کے بیضے
ہر بالغ عورت کے اندر تقریباً چار لاکھ کچے بیضے موجود ہوتے ہیں۔
مگر ان میں سے بھی ہر وقت صرف ایک ہی بیضہ پکتا ہے اور نطفے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
جب مرد کے کروڑوں جرثومے موجود ہیں تو صرف ایک ہی بیضے میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ باقی کیوں نہیں داخل ہوسکتے؟
عورت کے لاکھوں بیضوں میں سے صرف ایک ہی بیضہ کیوں پکتا ہے؟ سب کیوں نہیں پکتے؟
یہاں سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسی طاقت ہے جو باقی جرثوموں کو روک دیتی ہے؟ اور عورت کے بیضوں میں سے صرف ایک کو مقررہ وقت پر ظاہر کرتی ہے؟
حقیقت
نہ تو نطفے کے جراثیم میں کوئی شعور ہے،
اور نہ ہی عورت کے بیضوں میں کوئی عقل۔
پھر یہ کامل اور منظم نظام کیسے قائم ہے؟
اس کا جواب صرف ایک ہے:
یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے کنٹرول سے ہوتا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا جرثومہ کامیاب ہوگا اور کون سا بیضہ تیار ہوگا۔
نتیجہ
یہ حقیقت بتاتی ہے کہ جدید سائنس بھی اپنے مشاہدات اور تجربات کے ذریعے بالآخر اللہ تعالیٰ کے وجود کی شہادت دے رہی ہے۔
دلیل نمبر 3: اجرامِ فلکی کا نظام
قرآن کریم فرماتا ہے:
﴿كُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ﴾ (الأنبیاء: 33)
‘‘یہ سب اجرام فلکی اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔’’
سائنسی حقیقت
سورج اپنے مدار پر گردش کر رہا ہے۔
چاند زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔
زمین بھی سورج کے گرد اور ساتھ ہی اپنی محور پر روزانہ حرکت کرتی ہے۔
اسی طرح بے شمار سیارے اور ستارے اپنے اپنے دائرے میں مسلسل حرکت کر رہے ہیں۔
یہ تمام نظام ہزاروں سال سے قائم ہے، مگر آج تک نہ کوئی سیارہ اپنے مدار سے ٹکرایا اور نہ ہی ان کی حرکت میں ذرا برابر فرق آیا۔
غور طلب پہلو
اتنے بڑے اور عظیم اجرام فلکی بغیر کسی خالق کے کیسے وجود میں آسکتے ہیں؟
اگر یہ خود بخود وجود میں آتے تو لازماً ان میں ٹکراؤ، بے ترتیبی اور حادثات ہوتے۔
حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایک قادرِ مطلق ہستی نے پیدا کیا اور اپنی قدرت سے ان کے مدار مقرر کردیئے۔
مثالیں
سائنسدانوں نے مصنوعی سیارے اور راکٹ بنا کر خلا میں چھوڑے ہیں، جو زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ سب انسان نے بنایا اور کنٹرول کیا۔ کیا یہ سب خود بخود بن گئے؟ ہرگز نہیں!
اسی طرح میزائل ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اور مخصوص ہدف پر لگتے ہیں۔ وہ خود بخود نہ بنے اور نہ ہی خود بخود چلتے ہیں۔
جب چھوٹی انسانی تخلیقات خودبخود نہیں بن سکتیں، تو اتنے عظیم الشان سیارے اور کہکشائیں کیسے بغیر خالق کے وجود میں آسکتی ہیں؟
قرآن کی گواہی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ ٱللَّهَ يُمْسِكُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَآ إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّنۢ بَعْدِهِۦٓ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا﴾ (الفاطر: 41)
‘‘اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں۔ اگر وہ ہٹ جائیں تو اللہ کے بعد کوئی نہیں جو انہیں روک سکے۔’’
نتیجہ
ہزاروں سال سے سورج، چاند اور ستاروں کا طلوع و غروب ایک مقررہ وقت پر ہورہا ہے۔
ان کے نظام میں ایک لمحے کا بھی فرق نہیں آتا۔
اگر یہ سب خود بخود ہوتا تو کب کا بگڑ چکا ہوتا۔
یہ پورا نظام ایک ہی خالق کے کنٹرول میں ہے، اور وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے وجود کی روشن حقیقت
کائنات کی گواہی
اللہ تعالیٰ کے وجود کے دلائل پوری کائنات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ زمین و آسمان، پہاڑ و دریا، سورج و چاند، ستارے و کہکشائیں—سب گواہی دیتے ہیں کہ یہ سب ایک خالق کے بنائے ہوئے ہیں۔
شیخ سعدی رحمہ اللہ نے فرمایا:
گر نہ بیند بروز شبگیر چشم
چشمہ آفتاب را چہ گناہ
یعنی اگر دن کے وقت آنکھ اندھی ہو اور سورج نہ دیکھ سکے تو اس میں سورج کا قصور نہیں بلکہ اس اندھی آنکھ کا ہے۔
حقیقت کو نہ ماننے والے
اگر کوئی شخص ان سب دلائل کو نہ مانے تو یہ اس کی ضد، بیماری اور اندھے پن کی دلیل ہے۔
جیسا کہ کہا گیا ہے:
طوفان نوح لانے سے اسے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں اگر اثر کریں
یعنی ضدی اور اندھے شخص کے سامنے بڑے بڑے دلائل بھی بے اثر رہتے ہیں۔
خلاصہ کلام
اللہ تعالیٰ کے وجود کے دلائل عقل، علم اور مشاہدہ سب میں واضح ہیں۔
دہریہ اور ملحد لوگ دراصل اپنے نفس کے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔
عقل مند انسان کائنات کی حقیقت دیکھ کر فوراً اقرار کرتا ہے کہ اس کا ایک خالق ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب