سوال:
ایک پاکستانی ایپ کے ذریعے آن لائن چیزیں فروخت کر کے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ ایپ پر مختلف مصنوعات جیسے کپڑے، جوتے، زیورات، مشینری، میک اپ وغیرہ کے تصاویر اور تفصیلات موجود ہوتی ہیں، جنہیں ہم کسی کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہماری شیئر کی گئی تصویر دیکھ کر آرڈر دیتا ہے، تو ہم اصل قیمت میں اپنا منافع شامل کرکے اسے چیز کی قیمت بتاتے ہیں۔
جب کسٹمر آرڈر دیتا ہے، تو ہم اس کا نام اور ایڈریس ایپ میں درج کرتے ہیں، اور پھر ایپ خود ہی چیز کی ڈیلیوری کرتی ہے۔ ہمارا منافع ہمیں ایزی پیسہ، جاز کیش یا بینک اکاؤنٹ میں مل جاتا ہے۔ اگر کسٹمر چیز واپس بھی کر دے، تب بھی ہمیں ہمارا منافع دیا جاتا ہے۔ آرڈر کسٹمر تک ہمارے نام سے پہنچتا ہے، نہ کہ ایپ کے نام سے۔
ایپ ہمیں ان کے پلیٹ فارم سے چیزیں فروخت کرنے کے پیسے دیتی ہے، اور ہمیں منافع طے کرنے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ کیا یہ طریقہ کار اور اس سے کمائی جائز ہے یا نہیں؟
جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
یہ کاروباری طریقہ ڈراپ شپنگ کہلاتا ہے۔ لجنۃ العلماء للإفتاء کے تفصیلی فتاوی کے مطابق مروجہ ڈراپ شپنگ شرعی طور پر درست نہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
مالک ہونے کا دعویٰ:
اس کاروبار میں بیچنے والا خود کو مالک ظاہر کرتا ہے، جبکہ حقیقت میں وہ چیز اس کی ملکیت میں نہیں ہوتی۔
ملکیت اور قبضہ نہ ہونا:
شرعی اصول کے مطابق کسی چیز کو بیچنے سے پہلے اس کی ملکیت اور قبضہ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ ڈراپ شپنگ میں فروخت کنندہ کے پاس نہ تو چیز ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر اس کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔
بیع قبل القبض کی ممانعت:
اسلام میں بیع قبل القبض (کسی چیز کو خریدنے سے پہلے آگے فروخت کرنا) جائز نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا ہے کہ جس چیز کو خرید لیا جائے، پہلے اسے اپنے قبضے میں لیا جائے، پھر آگے بیچا جائے۔
چونکہ ڈراپ شپنگ میں ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اس لیے اس طرح کاروبار کرنا اور اس سے کمائی حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں۔