سوال:
چھوٹے بچوں کی پرورش کا حق کسے حاصل ہے؟
جواب:
تاریخ انسانی میں احترامِ آدمیت کی جو تعلیمات اسلام نے بیان کی ہیں، کسی دوسرے مذہب یا تہذیب و تحریک کے حاشیہ خیال سے بھی نہیں گزریں۔ اسلام ابن آدم کی پانچ چیزوں کی حفاظت کرتا ہے: جان، مال، عقل، عزت اور ایمان۔ پیدائش سے جوانی تک کے مراحل میں بعض ایسے ہیں کہ انسان بے حیثیت سا ڈھانچہ ہے، اسے کامل اور مکمل توجہ کی ضرورت ہے، قدم بہ قدم رہنمائی مانگتا ہے۔ اس کی پرورش، اس کی جسمانی، عقلی اور دینی ضروریات نبھانے کی ذمہ داری ماں باپ کو سونپی گئی ہے۔ لیکن بسا اوقات ستم ظریفی حالات کی مجبوریاں بچے کے ماں باپ میں جدائی کا پیغام لاتی ہیں، انہیں ایک دوسرے سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
ایسے عالم میں اس بچے کی ذمہ داری کون اٹھائے گا، جسے نشوونما کی ضرورت ہے، جس کا ماں باپ کے اس ہنگام میں ذرا سا بھی دخل نہیں؟ تو اسلام نے اس کے لیے ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو خاص نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے ماں باپ کی صلاحیت کو دیکھا جائے گا کہ کون ہے جو اس کی پرورش کر پائے گا، اسے مکمل دینی، روحانی، جسمانی اور عقلی ضروریات فراہم کر سکے، ماں یا باپ۔ اگر ماں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے، تو بچہ ماں کے نام، اور اگر باپ کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے، تو بچہ باپ کی پرورش میں دیا جائے گا۔ عربی زبان میں اسے "حضانتہ” کہتے ہیں۔
❀ حضانت کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
في الشرع حفظ من لا يستقل بأمره وتربيته ووقايته عما يهلكه أو يضره
”شرعی اصطلاح میں حضانت کہتے ہیں اس کی حفاظت جو اپنے معاملات میں خود مختار نہ ہو، اس کی تربیت کرنا اور مہلک یا مضر چیزوں سے بچانا۔“
(سبل السلام شرح بلوغ المرام: 330/2)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
إن امرأة قالت: يا رسول الله، إن ابني هذا كان بطني له وعاء، وثديي له سقاء، وحجري له حواء، وإن أباه طلقني، وأراد أن ينتزعه مني، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنت أحق به ما لم تنكحي.
”ایک عورت نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! میں نے اس بچے کو اپنے شکم میں رکھا، دودھ پلایا اور پالا پوسا۔ اس کے ابو نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگے نکاح کرنے تک آپ کا زیادہ حق ہے۔“
(مسند الإمام أحمد: 182/2، سنن أبي داود: 2276، السنن الكبرى للبيهقي: 7/8، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے (207/2) ”صحیح الاسناد“ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”صحیح “کہا ہے۔
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیح “کہا ہے۔
(البدر المنير: 317/8)
❀ علامہ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
لم يختلفوا أن الأم أحق بالولد الطفل من الأب ما لم تتزوج، فإذا تزوجت فلا حق لها فى حضانة، فإن كانت لها أم فأمها تقوم مقامها، ثم الجدات من قبل الأم أحق به ما بقيت منهن واحدة.
”اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ماں جب تک آگے شادی نہ کر لے، چھوٹے بچے پر والد سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ جب شادی کر لے تو بچے پر کوئی حق نہیں۔ اگر ماں نہ ہو تو نانی، پھر اوپر والی جدات حق دار ہوں گیں۔“
(معالم السنن: 282/3)
یہ اجماعی مسئلہ ہے۔
❀ علامہ ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ (543ھ) فرماتے ہیں:
اتفق العلماء على ذلك.
”علمائے کرام کا اس پر اتفاق ہے۔“
( المسالك شرح موطأ مالك: 489/6، القبس في شرح موطأ مالك بن أنس، ص 954)
❀ ابو میمونہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
”میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ فرمانے لگے: ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، میرے شوہر میرے بیٹے کو مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہیں، جب کہ میرا بیٹا مجھے فائدہ دیتا ہے اور بئر ابی عنبہ سے پانی بھر کر لاتا ہے۔ اس کا خاوند بھی آکر کہنے لگا: میرے بیٹے کے متعلق کون جھگڑ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹا! یہ آپ کے ابو جان ہیں اور یہ آپ کی امی جان ہیں، جس کے ساتھ جانا چاہتے ہو، جا سکتے ہو۔ بچے نے ماں کا ہاتھ پکڑا اور چلتا بنا۔“
(سنن النسائي: 3496، مسند الإمام أحمد: 296/2، سنن أبي داود: 2277، سنن الترمذي: 1357، سنن ابن ماجة: 2351، وسنده صحيح)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن صحیح“، امام حاکم رحمہ اللہ (197/4) نے ”صحیح الاسناد“ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”صحیح “کہا ہے۔
❀ علامہ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
هذا فى الغلام الذى قد عقل واستغنى عن الحضانة، فإذا كان كذلك خير بين أبويه.
”یہ حکم اس بچے سے متعلق ہے، جو عاقل ہو اور کسی کی دیکھ بھال کا محتاج نہ ہو، لہذا جب بچہ ایسا ہو، تو اسے ماں باپ کے درمیان اختیار دیا جائے گا۔“
(معالم السنن: 283/3)
❀ ناصر السنہ، علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ مطلق نہیں ہے، بلکہ جو بچہ جان پہچان رکھتا ہو، تو اس صورت حال کی استثناء ہو سکتی ہے۔ ورنہ بچے کو اختیار کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، کیوں کہ وہ ضعیف العقل ہے۔ اس کی مزید تفصیل زاد المعاد میں دیکھی جا سکتی ہے۔“
(حاشیۃ الروضۃ الندیۃ 338/2)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ہم نے جسے اختیار یا قرعہ کے ذریعہ مقدم کیا ہے، وہ بچے کی مصلحت کی پیش نظر ہے۔ باپ کی بہ نسبت ماں زیادہ خیال رکھنے والی اور غیرت مند ہو، تو اسے مقدم کریں گے، اس حالت میں کسی قرعہ یا بچے کے اختیار کا اعتبار نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ کم عقل ہے، ڈھیل اور کھیل کو ترجیح دے گا۔ بچہ جب ماں باپ میں سے کسی ایسے کو اختیار کر لے، جو فضولیات میں اس کی مدد کرتا ہے، اس صورت میں بچے کا اختیار نا قابل التفات ہوگا اور اس کے پاس رہے گا، جو اس کے حق میں شرعی طور پر خیر اور حفاظت کا باعث ہو۔ شریعت اسی کی گنجائش دیتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس برس کی عمر میں نماز چھوڑنے پر زدوکوب کرو۔ نیز بستر بھی علیحدہ کر دو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾ (التحريم: 6) مومنو! خود اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھیں۔ ماں جب اسے مکتب میں رکھے گی اور قرآن کی تعلیم سے آشنا کرے گی اور بچہ کھیل کود اور اپنے ساتھیوں کی محفل کو ترجیح دے، جب کہ باپ بھی اس سب کا اہتمام کر سکتا ہے، تو باپ بغیر کسی قرعہ کے زیادہ حق دار ہے۔ اس کے برعکس ہو، تو بھی یہی حکم ہے۔ اگر دونوں میں سے کوئی بچے میں اللہ اور رسول کے اوامر نافذ کرنے کی استعداد نہیں رکھتا اور دوسرا ان سب کا خیال رکھ سکتا ہے، تو یہی حق دار ہوگا۔ میں نے اپنے شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو فرماتے سنا تھا: کسی حاکم کے ہاں والدین کا ایک بچے کے متعلق جھگڑا ہو گیا۔ قاضی کے اختیار دینے پر بچے نے باپ کو اختیار کر لیا۔ ماں نے قاضی سے کہا کہ بچے سے پوچھیں کہ باپ کو کیوں چنا؟ پوچھنے پر کہنے لگا: میری ماں مجھے روزانہ لکھاری کے پاس بھیجتی ہے اور استاد مجھے مارتا ہے، جب کہ میرے ابو مجھے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیتے ہیں۔ قاضی نے ماں کے حق میں فیصلہ کر کے فرمایا: آپ ہی اس کی زیادہ حق دار ہیں۔ ہمارے استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ جب ماں باپ میں سے کوئی اپنے بچے کی تعلیم اور فرائض کو چھوڑ دے، وہ گناہ گار ہے اور اس کی کوئی ولایت نہیں، بلکہ جو بھی بچے کے واجب امور کا اہتمام نہ کرے وہ ولایت کا اہل نہیں ہے۔ یا تو اس سے ولایت چھین کر کسی مہتم کو دے دی جائے گی یا اس کے ساتھ کسی ایسے کو شریک کر دیا جائے گا جو واجبات کا اہتمام کروائے، کیوں کہ مقصود جہاں تک ممکن ہو اللہ و رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ ہمارے شیخ فرماتے ہیں: یہ کوئی موروثی حق نہیں ہے، کہ جو رشتہ داری، نکاح یا ولا سے حاصل ہو جائے اور وارث پارسا ہو یا فاسق و فاجر، بلکہ یہ ایسی ولایت ہے، جس میں واجبات، اس کا علم اور جتنا ممکن ہو، عمل میں لانے کی بساط ہو۔ نیز فرماتے ہیں: فرض کیا ایک بندہ کسی عورت سے شادی کر لے اور وہ عورت اس کی بیٹی کا خیال نہ رکھے، نہ اس کی مصلحت کو سمجھے، جب کہ اس کی ماں اپنی سوتن سے زیادہ اس کی مصلحت کا خیال رکھتی ہے اور تربیت بھی بخوبی کر سکتی ہے۔ اس صورت حال میں پرورش ماں کا حق ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شارع علیہ السلام نے والدین میں سے کسی کو بھی مطلق طور پر مقدم نہیں کیا اور نہ ہی عمومی طور پر بچے کو اختیار دیا ہے۔ علمائے کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ پرورش کرنے میں علی الاطلاق کوئی بھی مقدم نہیں ہے۔ لہذا کسی سرکش اور مفرط کو نیک، عادل اور محسن پر مقدم نہیں کیا جا سکتا، واللہ اعلم!
(زاد المعاد في هدي خير العباد: 475/4)