سوال
چھوٹی بستی میں نماز جمعہ ادا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات واضح ہے کہ غلام، عورت، بچے، بیمار، قیدی اور مسافر کے علاوہ ہر بالغ مسلمان پر نماز جمعہ فرض عین ہے، چاہے وہ شہر میں رہتا ہو یا گاؤں میں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
قرآن مجید سے دلیل
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٩﴾ …الجمعه
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھتے ہو۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں حکم دیا گیا ہے کہ اہل ایمان نماز جمعہ کے لیے آئیں۔ ظاہر ہے کہ ایمان والے صرف شہری نہیں بلکہ دیہاتی بھی شامل ہیں۔ لہٰذا یہ حکم شہری اور دیہاتی دونوں کے لیے عام ہے۔ اس پر پوری امت کا اجماع ہے۔
اجماع امت
ابن منذر اور ابن العربی نے فرمایا:
قَدْ حَكَى ابْنِ الْمُنْذِر الْإِجْمَاع عَلَى أَنَّهَا فَرْض عَيْن. وَقَالَ ابْنُ الْعَرَبِيِّ: الْجُمُعَة من فروض الأعیان۔ (نیل الاوطار: ص۲۵۴ج۲)
’’امام ابن منذر اور ابن العربی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ہر آزاد، بالغ مسلمان مرد پر (خواہ شہری ہو یا دیہاتی) نماز جمعہ فرض ہے، بشرطیکہ وہ مسافر، بیمار یا قیدی نہ ہو۔‘‘
احادیث مبارکہ سے دلائل
➊ حدیث طارق بن شہاب
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِى جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ۔ (سنن ابی داؤد ۱۵۳، نیل الاوطار: ص۲۵۸ج۳)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان پر جمعہ واجب ہے، سوائے غلام، عورت، نابالغ اور مریض کے۔‘‘
➋ حدیث حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا
عَن حَفصة رضی اللہ عنہا ان النبیﷺ قال: رَوَاحُ الجُمعة وَاجبٌ عَلیٰ کُلِّ مُحتَلِمٍ۔ (رواہ النسائی، نیل الاوطار ج۳ص۲۵۷، باب من تحب عليه ومن لا تحب)
’’حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر بالغ مرد پر جمعہ کے لیے جانا واجب ہے۔‘‘
یہ دونوں احادیث اپنے عموم کے اعتبار سے شہری اور دیہاتی سب کو شامل ہیں۔
احادیث میں بستی والوں کے لیے صراحت
➊ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي مَسْجِدِ عَبْدِ القَيْسِ بِجُوَاثَى مِنَ البَحْرَيْنِ۔ (صحیح بخاری: ص۱۲۲ج۱ باب الجمعة فی القریٰ)
’’رسول اللہ ﷺ کے مسجد نبوی میں جمعہ قائم کرنے کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کی بستی جُواثی میں عبدالقیس کی مسجد میں ادا کیا گیا۔‘‘
➋ حدیث کعب بن مالک رضی اللہ عنہ
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ… قَالَ: ” لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ جَمَّعَ بِنَا فِي هَزْمِ النَّبِيتِ مِنْ حَرَّةِ بَنِي بَيَاضَةَ فِي نَقِيعٍ، يُقَالُ لَهُ: نَقِيعُ الْخَضَمَاتِ "، قُلْتُ: كَمْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: «أَرْبَعُونَ۔ (أبوداؤد مع شرح عون المعبود: ص۴۱۴ج۱)
’’کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سعد بن زرارہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ہزم نبیت کی بستی میں ہمیں جمعہ پڑھایا، اور اس وقت ہم چالیس افراد تھے۔‘‘
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان
جمعو حیث ماكنتم۔ قال البیھقی فی المعرفة اسناد ھذا الاثر حسن۔ (فتح الباری، عون المعبود: ص۴۱۵ج۱)
’’جہاں بھی ہو، چاہے شہر میں یا گاؤں میں، جمعہ قائم کرو۔‘‘
امام ابن حزم کا فیصلہ
ومِنْ أَعْظَمِ الْبُرْهَانِ عَلَى صحتها في القرى أن النبي أَتَى الْمَدِينَةَ وَإِنَّمَا هِيَ قُرًى صِغَارٌ مُتَفَرِّقَةٌ فَبَنَى مَسْجِدَهُ فِي بَنِي مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ وَجَمَّعَ فِيهِ فِي قَرْيَةٍ لَيْسَتْ بِالْكَبِيرَةِ وَلَا مِصْرَ هُنَاكَ۔ (عون المعبود: ص۴۱۰ج۱)
’’دیہات میں جمعہ کے جواز کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو وہ اس وقت مختلف چھوٹی بستیوں پر مشتمل تھا۔ آپ ﷺ نے بنو مالک بن نجار کی بستی میں مسجد تعمیر کی اور اسی میں جمعہ قائم فرمایا، حالانکہ وہ کوئی بڑا شہر نہ تھا۔‘‘
نتیجہ
مندرجہ بالا قرآن کی آیت، اجماع امت، احادیث صحیحہ اور صحابہ کے آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز جمعہ شہریوں کی طرح دیہاتیوں پر بھی فرض ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب