چچا کے انکار کی صورت میں نکاح کے ولی کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 427

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں مسمات بوڑھی بنت سوزل خان عاقلہ بالغہ، میرا والد فوت ہو گیا ہے جس نے اپنی زندگی میں میری منگنی بنام محمد صالح کے ساتھ کی جس پر میں اور میری والدہ راضی ہیں۔ اب میرا چچا میری شادی دوسری جگہ کرنا چاہتا ہے جو نہ صرف میری مرضی کے خلاف ہے بلکہ باعث تکلیف و نقصان ہے۔ اب عرض یہ ہے کہ اس صورت میں میرے نکاح کا ولی وارث میرا چچا سہراب خان ہوگا یا کسی دوسرے نانا یا ماماکو حق ولایت حاصل ہوگا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ اگر کسی عورت کا ولی اس کی مخالفت کرکے اس کا نکاح روکے یا کسی معقول جگہ نکاح نہ ہونے دے تو ایسی حالت میں عورت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مرد کو اپنا ولی مقرر کر لے۔

جیسا کہ سنن دارقطني، ابواب النکاح میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

((قال إذا كان ولى المرأة مضارا فولت رجلا فنكاحها ونكاحة جائزة.))
”یعنی اگر عورت کا ولی نقصان دینے والا ہو تو عورت کسی بھی مرد کو اپنا ولی مقرر کرکے نکاح کرسکتی ہے۔“

اسی طرح مسند شافعی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حدیث منقول ہے:

((لا نكاح إلا بشاهدى عدل و ولى مرشد.))
جلد نمبر ٩، صفحہ ٤٨٢، ط: بيروت
”یعنی نکاح دو عادل گواہوں اور ایک خیرخواہ ولی کے بغیر نہیں ہے۔“

چونکہ اس بیان کردہ صورت میں سہراب خان (چچا) مضار ہے، اس لیے نکاح کا حق ولایت اس سے ختم ہو گیا۔ لہٰذا مسمات بوڑھی اپنے نکاح کے لیے اپنے نانا یا ماما میں سے کسی بھی مرد کو ولی مقرر کر کے اپنی مرضی سے نکاح کروا سکتی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے