چوری کے مال سے حج کا حکم اور اس کا شرعی حل
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

چوری کے مال سے حج کرنا

مسلمان کے لیے مال چوری کرنا پھر اسے حج کرنے، گھر بنانے یا اس جیسے کام میں صرف کرنا جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«‏ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ» [البقرة: 188]
”اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ۔“
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
”یقیناً اللہ تعالیٰ طیب ہے، طیب اور پاک کے سوا کچھ قبول نہیں کرتا۔“ [صحيح مسلم 1015/65]
جو تم نے اس سے لیا ہے اسے اس کے مالک کو واپس کرنا اور اس سے بری اور الگ ہو جانا بھی ضروری ہے۔ اگر تجھے اس کے مالک کا علم ہے تو اسے اس کو لوٹانا فرض ہے۔ اگر تم نے وہ مال گھر بنانے یا حج کرنے میں استعمال کر لیا ہے تو پھر اس رقم کا عوض دینا لازمی ہے جو تم نے اس سے لی تھی، لیکن اگر وہ تجھے معاف کر دے اور اجازت دے دے تو پھر کوئی حرج نہیں۔
لیکن اگر تجھے اس کے مالک کا علم نہیں تو پھر اس کی طرف سے نیت کر کے وہ مال محتاجوں پر صدقہ کر دے۔ اگر اس کے بعد وہ آئے اور اس رقم کا مطالبہ کرے تو وہ رقم اسے واپس کرنا ضروری ہوگا اور تمھارا حج درست ہوگا لیکن گناہ کے ساتھ، کیونکہ اس پر جو رقم خرچ کی گئی تھی وہ حرام تھی، لیکن اگر تم سچی توبہ کے ساتھ اس طرح کرو جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربانی کر دے۔
[الفوزان: المنتقى: 320]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1