قصہ نمبر 1 :
نزول وحی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل
——————
حضرت ابن عباسی رضی اللہ عنہما نے آیت لا تحرك به لسانك کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن سے کچھ مشقت محسوس کرتے تھے۔ اور اکثر (قرآن یاد کرنے کے لئے نزول وحی کے وقت ہی ) اپنے لبوں کو ہلایا کرتے تھے۔ (یعنی جلدی جلدی یاد کر لیتے تھے تا کہ بھول نہ جائیں) یہ حدیث بیان کرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے شاگرد سعید کے سامنے اور سعید نے اپنے شاگرد کے سامنے لب ہلا کر دکھائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح لب ہلاتے تھے خیر! خدائے تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ”قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لئے تم اپنی زبان نہ ہلاؤ کیونکہ قرآن کو تمارے سینہ میں جمع کرنا اور اس کی قرأت میں سہولت پیدا کرنا ہمارے ذمہ ہے۔“ جس وقت ہم اس کو پڑھیں تو تم اس کو کان لگا کر خاموشی کے ساتھ سنو۔ اس کے بعد یہ بات ہمارے ذمہ ہے کہ تم اس کو پڑھ سکو گے “ چنانچہ (آپ نے اس حکم کی تعیل کی) جب جبرئیل آتے تھے تو آپ ان کے کلام کو سنتے رہتے تھے پھر ان کے جانے کے بعد آپ ویسے ہی پڑھ دیتے تھے جس طرح جبرئیل نے پڑھا تھا (ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ فاتبع قرانه سے خاموشی کے ساتھ سننا مراد ہے اور قرآنہ کے معنی پڑھنے کے ہیں اور بیانہ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات ہے۔)
فائده :
اس حدیث سے تلاوت قرآن کریم کا ایک ادب معلوم ہوا کہ جس وقت تلاوت ہو رہی ہو، اسے خاموشی، توجہ اور غور و فکر کے ساتھ سننا چاہئے، عام طور پر کیسٹ اور ریڈیو وغیرہ پر تلاوت قرآن کریم سنتے ہوئے اس چیز کا خیال نہیں رکھا جاتا اور اپنی باتوں میں مصروفیت ترک نہیں کی جاتی، یہ طرز عمل قابل اصلاح ہے۔
قصہ نمبر 2 :
ہرقل کے دربار میں اسلام کا بول بالا
——————
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ قصہ بیان کیا کہ جب ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان مقام حدیبیہ میں صلح ہو گئی تو اسی دوران ہم تجارت کے لئے شام گئے تھے، اس وقت ہرقل شاہ روم مقام ایلیاء میں تھا، اس نے مجھ کو اور قریش کے دیگر چند سواروں کو بلایا۔ حسب الطلب ہم وہاں پہنچے، ہرقل نے ہم کو دربار میں بلایا، ہم اندر داخل ہوئے، سرداران روم اس کے گردا گرد بیٹھے ہوئے تھے، اس کے بعد ترجمان کو بلایا گیا اور (ترجمان کے واسطے سے) ہرقل نے ہم سے دریافت کیا کہ تم میں سے کون شخص اس پیغمبر کا قریبی رشتہ دار ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ میں قریبی رشتہ دار ہوں ! ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو میرے سامنے لاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پس پشت بٹھا دو، اس کے بعد ہرقل نے میرے ساتھیوں سے کہا کہ میں اس شخص سے کچھ پوچھتا ہوں۔ اگر یہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ بیان کر دینا، ابوسفیان کہتے ہیں کہ اگر مجھ کو اپنے دروغ گو مشہور ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو خدا کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کرنے میں کچھ جھوٹ ملا دیتا۔ خیر ! ہرقل نے سب سے اول مجھ سے دریافت کیا کہ اس پیغمبر کا حسب نسب کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ وہ ہم لوگوں میں نہایت شریف اور اصیل خاندان کا فرد ہے ! ہرقل بولا کہ اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ! ہرقل نے کہا کیا بڑے اور امیر لوگ اس کے تابع ہوئے یا غریب لوگ ؟ میں نے کہا غریب لوگ اس کے پیرو ہوئے ہیں ! ہرقل نے کہا کیا اس کے ساتھی بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟ میں نے کہا بڑھ رہے ہیں۔ ہرقل نے کہا کیا اس کے دین سے ناخوش ہو کر اس کے رفقاء میں سے کوئی پھر بھی جاتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ! ہرقل نے کہا کہ کیا وہ کبھی قتل کر کے دغا بھی کرتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ! لیکن اب ہم میں اور اس میں صلح ہوئی ہے معلوم نہیں آئندہ وہ کیا کرے، ابوسفیان کہتے ہیں کہ واللہ ! اتنی بات کے سوا میں اور کچھ نہ ملا سکا۔ ہرقل نے کہا تم میں اور اس میں لڑائی بھی ہوئی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ! ہرقل نے لڑائی کا نتیجہ دریافت کیا میں نے کہا برابر کی لڑائی ہوتی ہے کبھی وہ ہم پر غالب ہو جاتا ہے کبھی ہم اس پر، ہرقل نے کہا وہ تم کو کن کن چیزوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے ؟ میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ خدائے واحد کی پرستش کرو،کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ، اپنے آباؤ اجداد کے قول کو چھوڑ دو، وہ ہم کو نماز پڑھنے، سچ بولنے، حرام چیزوں سے بچنے اور برادر پروری کا حکم دیتا ہے ! یہ سن کر ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ اس سے کہہ دو کہ میں نے تم سے اس کا حسب نسب دریافت کیا تو تم نے جواب دیا کہ وہ شریف النسب ہے تو ( قاعدہ یہی ہے کہ ) پیغمبر شریف النسب اور عالی خاندان ہوتے ہیں، میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تمہاری قوم میں اس سے پہلے بھی کسی نے دعوی نبوت کیا تھا ؟ تم نے جواب دیا نہیں، اگر کسی اور نے نبوت کا دعوی کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ اس نے بھی انہی کی تقلید کی اور وہی اس کے سر میں بھی سمائی، میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے آباء و اجداد میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے تم نے جواب دیا نہیں، اگر کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص نبوت کے پردہ میں اپنے باپ دادا کی سلطنت کا خواہش مند ہے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا دعوی نبوت سے قبل بھی دروغ گوئی سے وہ مہتم بھی ہوا ہے ؟ تم نے کہا نہیں، تو جو شخص کبھی آدمیوں کے متعلق جھوٹ نہیں بولتا وہ خدا پر کیوں کر جھوٹ لگا سکتا ہے، میں نے تم سے پوچھا تھا کہ امیر لوگ اس کے تابع ہوئے ہیں یا چھوٹے اور کمزور لوگ ! تو تم نے جواب دیا کہ غریب آدمی اس کے پیرو ہیں تو یہی حال تمام پیغمبروں کا ہوا ہے، شروع شروع میں غریب لوگوں نے ہی ان کی اطاعت کی ہے، میں نے دریافت کیا تھا کہ اس کے ساتھی بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے بھی ہیں تم نے کہا کہ زیادہ ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں تو ایمان کی کیفیت بھی یہی ہے کہ ترقی کرتے کرتے کمال تک پہنچتا ہے، میں نے پوچھا تھا کہ کیا کوئی شخص اس کے مذہب سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے جواب دیا نہیں ؟ تو نور ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے کہ دل میں رچ جانے کے بعد زائل نہیں ہوتا۔ میں نے دریافت کیا تھا کہ وہ کوئی بات کر کے کبھی دغا بھی کرتا ہے تم نے کہا نہیں، تو واقعی پیغمبروں کی یہی عادت ہوتی ہے کہ وہ دغا نہیں کرتے، میں نے تم سے دریافت کیا تھا کہ کس کس بات کا وہ تم کو حکم دیتا ہے تم نے جواب دیا کہ ہم کو نماز پڑھنے، سچ بولنے، برادر پوری کرنے اور پرہیزگار رہنے کی تعلیم دیتا ہے، وہ حکم دیتا ہے کہ خدائے واحد کی پرستش کرو،کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ، بت پرستی مت کرو، واقعی یہ باتیں سچی ہیں بلاشبہ وہ شخص پیغمبر ہے اور عنقریب اس کی سلطنت میرے قدموں کے نیچے تک پہنچ جائے گی، مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ اس زمانہ میں ایک پیغمبر کا ظہور ہو گا لیکن میرا خیال یہ نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں پیدا ہو گا، اگر مجھے علم ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو تکلیف اٹھا کر بھی میں اس کے پاس پہنچتا اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھویا کرتا۔
اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط طلب کیا جو دحیہ کلبی کے ہاتھ شاه روم کو بھیجا گیا تھا۔ دحیہ کلبی نے خط دیدیا، ہرقل نے کھولا تو اس کے اندر لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ کے بندہ اور اس کے رسول یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خط ہرقل سردار روم کے نام ہے، جو شخص راہ راست پر چلا وہ سلامتی سے رہے گا واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں اگر اسلام لے آؤ گے تو (دین و دنیا کی ) سلامتی نصیب ہوگی، تم مسلمان ہو جاؤ۔ خدا تعالی تم کو دوہرا ثواب عطا فرمائے گا۔ (یعنی ایک ثواب مذہب عیسوی کا اور دوسرا دین محمدی کی پیروی کا ) اور اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو تم پر تمام رعایا اور متبعین کا وبال رہے گا، اے اہل کتاب ! اس ایک بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے لیکن ہم تم سوائے خدا کے کسی کی عبادت اور پرستش نہ کریں، کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے خدا کے اپنا رب اور مالک قرار نہ دے، لہذا اگر اہل کتاب (توحید سے) منہ موڑ لیں تو ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو حکم الہی کے سنانے والے ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ ہرقل کو جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکا اور خط پڑھ چکا تو رومیوں میں بڑا شور و غوغابپا ہوا اور بڑی گفتگو ہوئی اور بمو جب حکم ہم دربار سے نکال دیئے گئے، نکلتے وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ابن ابی کبثہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا کام تو خوب بن گیا، اس سے تو شاه روم بھی ڈرتا ہے اور مجھ کو اس وقت سے لے کر دخول اسلام کے زمانہ تک برابر یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین عنقریب تمام ادیان پر غالب آ جائے گا۔ آخر کار خدا نے مجھے اسلام میں داخل کر دیا۔
زہری نے مذکورہ قصہ کے بعد اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ ہرقل نے سرداران روم کو ایک مکان میں بلا کر جمع کیا اور کہنے لگا۔ اے گروہ روم ! کیا تم کو ہمیشہ کے لئے فلاح و بہبودی اور ہدایت کی خواہش ہے اور کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہماری حکومت قائم رہے ؟ تمام سردار یہ سنتے ہی خرگوشوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، لیکن دروازے بند پائے، ہرقل نے کہا ان کو میرے پاس لاؤ، جب سب لوگ آ گئے تو ہرقل کہنے لگا میں تمہاری مذہبی پختگی کی آزمائش کرنا چاہتا تھا، سو میں نے تمہاری طرف سے وہ بات دیکھ لی جو میں دیکھنا چاہتا تھا، ہرقل کی یہ گفتگو سن کر سب لوگ اس کے سامنے سجدہ میں گر گئے اور خوش ہو گئے۔ [ صحیح بخاری : 5107، 2535،2650 وغيره]
فائدہ :
اس واقعے کے مرکزی راوی حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ہیں جو اگرچہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن فتح مکہ کے موقع پر الله تعالی نے انہیں بھی نور ایمان سے بہرہ ور فرمایا تھا۔ اس طویل واقعے میں جہاں اور بہت سی باتیں سبق آموز ہیں وہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ الله تعالی اپنے دین کا نام کسی بھی طرح روشن کرنے پر قادر ہیں، وہ اس سلسلے میں مسلمانوں کے محتاج ہر گز نہیں، مسلمان ان کے محتاج ہیں۔
قصہ نمبر 3 :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیعت لینے کا طریقہ
——————
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (عبادہ رضی اللہ عنہ جنگ بدر کے شرکاء میں سے ہیں اور جنگ احد میں پہاڑ کی گھاٹی کے جو لوگ نگران تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھے ) کہ ( ایک مرتبہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گردا گرد جمع تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : مجھ سے ان امور پر بیعت کرو کہ کسی کو خدا تعالی کا شریک نہ بناو گے، چوری اور زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے، کسی پر اپنے دل سے بہتان بازی نہ کرو گے اور کارخیر میں میری نافرمانی نہ کرو گے، اگر ان باتوں کو تم میں سے کوئی شخص پورا کرے گا تو اس کو ثواب دینا خدائے تعالی کے ذمہ ہے اور اگر کسی نے ان امور میں سے کسی امر کا ارتکاب کیا لیکن اس کو اس کی دنیوی سزا مل گئی تو (اخروی عذاب سے) اس کے لئے کفارہ ہو جائے گا اور اگر کسی نے ان باتوں میں سے کسی جرم کا ارتکاب کیا، اور خدا تعالی نے اس کی پردہ پوشی کر دی (دنیا میں کسی کو اس کے گناہ پر اطلاع نہ ہوئی اور دنیوی سزا اس کو نہ ملی) تو خدا کے اختیار میں ہے چاہے معاف کردے چاہے سزادے (راوی کہتے ہیں) ہم نے ان امور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت کی۔ [صحیح بخاری : 18، 3679، 3680، 3777، 4612، 6402، 6416، 6479، 6787، 6030]
فائدہ:
اس واقعے میں چھ امور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیت لینا مذکور ہے، تاریخ عالم اس حقیقت کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر جو بیعت کی تھی انہوں نے اسے وفا کر دکھایا، ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کا ہر مسلمان ان چھ امور کی پابندی اپنے اوپر لازم کر لے تا کہ دونوں جہان کی عزتیں پا سکے۔
قصہ نمبر 4 :
خادموں اور نوکروں کے حقوق
——————
حضرت معرور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقام ربذہ (مدینہ سے تین منزل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے) میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملا اس وقت وہ پورا لباس (یعنی چادر وتہ بند ) پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی پورا جوڑا پہنے ہوئے تھا، میں نے اس (مساوات )کا سبب دریافت کیا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (ایک بار) میں نے ایک شخص کو برا بھلا کہا اور اس کو ماں کی گالی دی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ ابوذر ! تو نے اس کو ماں کی گالی دی، تجھ میں جاہلیت کی خو ہے، تمہارے خدام تمہارے بھائی ہیں جن کو خدا تعالی نے تمہاری زیر تسلط کر دیا ہے لہٰذا اگر کسی کا بھائی اس کے ماتحت ہو تو مناسب ہے کہ جو کچھ خود کھائے اس کو بھی کھلائے، جو لباس پہنے اس کو بھی پہنائے اور ایسا بوجھ ان پر نہ ڈالو جس سے وہ دب جائیں، اگر ان پر کسی سخت کام کا بوجھ ڈالو بھی تو خود بھی ان کی مدد کرو (تنہا ان کو نہ چھوڑو)۔ [صحیح بخاری : 30، 2407، 5703 ]
فائدہ :
اس واقعہ سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اپنے خادموں اور نوکروں پر ہروقت برستے رہتے ہیں، معمولی معمولی بات پر گالی گلوچ سے باز نہیں آتے اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کسی کے نوکر ہیں اور زمانہ جاہلیت کے اس طریقے سے پیچھا چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے، یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس واقعے سے قارئین کرام کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات نہ آ جائے کہ معاذ اللہ حضرت ابو غفاری رضی اللہ عنہ جاہل تھے، بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس چیز کی مذمت بیان کرنا تھا ورنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زبان نبوت سے ہی نجوم راہ ہدایت قرار پائے تھے۔
قصہ نمبر 5 :
قاتل اور مقتول دونوں جہنمی
——————
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ (جنگ جمل کے دن) میں اس آدمی (حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کی مدد کرنے چلا، راستہ میں مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور مجھ سے دریافت کیا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا اس شخص کی مدد کروں گا، حضرت ابوبکر بولے لوٹ جاؤ،کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جب دو مسلمان تلوار لے کر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہوتے ہیں میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تو قاتل ہے (اس لئے دوزخی ہے ) لیکن مقتول کا کیا قصور ہے ؟ فرمایا وہ بھی اپنے مقابل کے قتل کرنے کا خواہش مند تھا۔ [ صحیح بخاری : 31، 6481، 6672 ]
فائدہ :
جنگ جمل دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہ کے درمیان خوارج وغیرہ کی فتنہ انگیزی اور شرپسندی کی وجہ سے ہوئی اور غداران اسلام نے ان دونوں حضرات کو آپس میں لڑانے کی بھرپور تدبیر کی جس میں وہ کامیاب بھی رہے تو ہم یہ دونوں چونکہ غلط فہمیوں کا شکار ہوئے تھے اس لیے اصل حقیقت سامنے آنے پر ایک دوسرے کے احترام میں کوئی کمی نہ آنے دی۔
آج کل کے پر فتن ماحول میں مقدمات قتل جس تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں وہ انتہائی ہو شربا ہے اور کھلی آنکھوں نظر آتا ہے جس شخص کو اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنایا ہے اگر اسے ایک لمحہ کا بھی موقع مل جاتا تو وہ قاتل کا چراغ گل کر دیتا، ایسی صورت میں پھر کیوں نہ دونوں جہنم میں جائیں ؟ یہ الگ بات ہے کہ سزا بھگتنے کے بعد جہنم سے واپس نکال لئے جائیں۔
قصہ نمبر 6: تحویل قبلہ کا واقعہ
——————
حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع شروع میں مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپنی تو اپنی ننہیال میں فروکش ہوئے اور سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی لیکن آپ دل سے خواہشمند تھے کہ آپ کا قبلہء نماز کعبہ مکرمہ ہو، چنانچہ آپ نے سب سے پہلے جو مکہ مکرمہ کے سمت نماز پڑھی وہ عصر کی نماز تھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جماعت شریک نماز تھی (جب یہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے تو) ان ہی نمازیوں میں سے ایک شخص (نماز پڑھ کر) چلا اور اس کا گزر ایک اور مسجد کی طرف ہوا، وہاں کے لوگ نماز پڑھ رہے تھے (ان کو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے دیکھ کر) یہ شخص بولا میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ ابھی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کعبہ کی سمت کو نماز پڑھی ہے، یہ سنتے ہی یہ لوگ فورا کعبہ کی سمت مڑ گئے۔
بیت المقدس کی جانب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز پڑھنا یہود و نصاری کو بہت اچھا معلوم ہوتا تھا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبہ کی طرف منہ پھیرا (یعنی مکہ کی سمت نماز پڑھنا شروع کی) تو یہ امر ان کو ناگوار ہوا۔
ابو اسحاق بروایت حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تحویل قبلہ سے قبل چند آدمی فوت ہوچکے تھے اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہ مختلف غزوات میں شہید ہو چکے تھے اور ہم کو تردد تھا کہ ان کے متعلق کیا رائے قائم کریں (ان کی نمازیں صحیح ہوئیں یا صحیح نہ ہوئیں ؟) اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی” خدا تعالی تمہاری نمازوں کو ضائع اور اکارت نہیں فرمائے گا۔“ (معلوم ہوا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے جو نمازیں پڑھی گئی تھیں وہ اکارت نہیں گئیں ) [صحیح بخاری : 40، 390، 4215، 4222، 6825 ]
فائدہ
” تحویل قبلہ“ ایک اصطلاحی لفط ہے جس کا معنی ہے قبلہ کی تبدیلی۔ اصل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں نماز پڑھا تے وقت بیت اللہ کے سامنے اس طرح قیام فرما ہوتے تھے کہ بیت المقدس کی طرف بھی رخ ہو جائے، لیکن مدینہ منورہ کا طول اور عرض بلد ایسا نہ ہونے کی وجہ سے یہ طریقہ ممکن نہ تھا اس لئے حکم ربانی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھائیں، تقریبا ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش اور تمنا کا مد نظر رکھتے ہوئے ”بیت اللہ “ شریف کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قبلہ مسلمین قرار دے دیا گیا۔
قصہ نمبر 7:
پسندیدہ عمل کونسا ؟
——————
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ( ایک روز) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میرے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی، فرمایا یہ کون عورت ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ عورت وہ ہے جس کی نماز کی سب لوگوں میں شہرت ہے( یعنی اس نماز کی کثرت مشہور ہے ) یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اس زیادتی اور کثرت سے) باز آجاؤ اور وہ چیز اپنے ذمے لے لو جس کی برداشت کی تم میں طاقت ہو کیونکہ تم تھک جاؤ گے اور خدا انہیں تھکے گا (یعنی کثرت عبادت سے آخرکار تم مجبور ہو جاؤ گے اور خدا تعالی کی تم کتنی ہی عبادت کرو، وہ ثواب دینے سے عاجز نہیں ہوسکتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینی کاموں میں سب سے پیارا اور پسندیدہ وہ کام معلوم ہوتا تھا جس پر انسان ہمیشہ پابندی کرے۔ [صحیح بخاری : 73، 1100، 1869]
فائدہ :
عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ جس شخص کے دین اور دینیات سے رغبت ”ابتدائی “ہو، وہ کثرت سے ان میں حصہ لیتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شوق، جذبے اور ولولے میں نمایاں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے اور وہ اصل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اس لئے فرمایا گیا کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہی ہو، باالفاظ دیگر اسے ”استقامت علی الدین“ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔