چندہ اور بیت المال سے بنی مسجد میں نماز کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 186

چندہ جمع کر کے مسجد تعمیر کرنے کا حکم

سوال:

ایک گاؤں کے باشندوں نے چندہ جمع کر کے مسجد تعمیر کی۔ بعد میں مسجد منہدم ہو گئی۔ اس کے بعد بستی والوں نے دوبارہ کچھ چندہ اور بیت المال کی رقم سے اینٹوں کی دیواریں بنا کر اس پر ٹین کی چھت ڈال کر مسجد کی شکل دی۔ اب شرعی لحاظ سے دریافت کیا گیا ہے کہ:

کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

زید کا کہنا ہے کہ بیت المال کی رقم ادا کر دینے سے نماز جائز ہو جائے گی۔

بکر کا موقف ہے کہ جب تک مسجد کو گرا کر دوبارہ تعمیر نہ کیا جائے، نماز جائز نہیں کیونکہ موجودہ تعمیر کو وہ ’’بناء فاسد‘‘ سمجھتا ہے۔

قول اول (زید) کی رائے کے مطابق جماعت میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے جبکہ قول ثانی (بکر) کی بات اتحاد بین المسلمین کے حق میں ہے۔

سائل: ابوالمحمود عبدالنور، حال مقیم پلاش باڑی، پوسٹ بناکوڑی، ضلع دیناج پور
مطالبہ: واضح کریں کہ اس مسجد میں نماز جائز ہے یا نہیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

✅ موجودہ مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے
اس مسجد میں نماز بلا شبہ جائز ہے۔ اس مسجد کو گرانے یا منہدم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

بیت المال میں عمومی طور پر قربانی کی کھالیں، فطرہ، زکوٰۃ اور عشر کی رقم جمع ہوتی ہے۔

💬 فطرہ و زکوٰۃ کے مصرف سے متعلق علماء کی آراء:

➊ پہلا قول (جس کے مطابق مسجد میں نماز جائز ہے):

جن علماء کے نزدیک "فی سبیل اللہ” کا مطلب عام ہے یعنی:
"جميع وجوه خير بما يعود نفعه الى المسلمين”
ان کے نزدیک فطرہ، زکوٰۃ اور عشر سے مسجد کی تعمیر جائز ہے۔

لہٰذا اس مسجد میں نماز پڑھنی بلا کراہت جائز ہے، جیسا کہ خالص چندہ سے بنی ہوئی مسجد میں بھی نماز درست اور جائز ہوتی ہے۔

➋ دوسرا قول (جس کے مطابق مسجد میں نماز جائز نہیں):

جن علماء کے نزدیک "فی سبیل اللہ” صرف کفار سے جہاد کے لیے مخصوص ہے، ان کے مطابق زکوٰۃ، فطرہ اور عشر کی رقم سے مسجد بنانا جائز نہیں۔

تاہم، ان کے نزدیک یہ جائز ہے کہ بیت المال کی ایک مد (اکاؤنٹ) سے قرض لیا جائے اور اسے دوسرے مد میں استعمال کیا جائے، بشرطیکہ:

◈ دوسرے مد میں رقم موجود نہ ہو
◈ اس کے مستحق لوگ موجود ہوں
◈ خرچ کرنا ضروری ہو

مثال: زکوٰۃ کی رقم کو جزیہ کی مد میں خرچ کرنا

📌 صورتِ مسئلہ کی شرعی حیثیت:

موجودہ معاملے میں، مسجد کی تعمیر میں جو رقم بیت المال سے خرچ ہوئی ہے، وہ قرض تصور ہوگی۔

لہٰذا، مسجد کے نمازیوں پر لازم ہے کہ:

◈ چندہ جمع کر کے بیت المال کو اس کے خرچ کی گئی رقم لوٹا دیں۔
◈ مسجد کو گرا کر بیت المال کی رقم ضائع نہ کریں، ورنہ عند اللہ جوابدہ ہوں گے۔

✅ زید کا قول راجح ہے:

زید کا قول درست اور اتفاق کے لائق ہے۔

بکر کا موقف صحیح نہیں اور اس کو "بناء اتفاق” نہیں بنایا جانا چاہئے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(یہ میرا علم ہے، اور اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے کہ درست بات کیا ہے)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے