چاندرات کی نماز :
عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی رات کو عبادت سے خاص کرنا ثابت نہیں بلکہ بدعت ہے۔ دلائل پر تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے۔
دلیل نمبر (1)
1۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من قام ليلتي العيدين محتسبا لله لم يمت قلبه يوم تموت القلوب
جس نے ثواب کی امید سے عیدین کی راتوں میں قیام کیا اس کا دل اس (وحشت والے) دن زندہ رہے گا جس دن لوگوں کے دل (قیامت کی ہولناکی کی وجہ سے) مردہ ہو جائیں گے۔
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
سند سخت ضعیف ہے۔
(سنن ابن ماجه : 1782)
➊ محمد بن معلی بن بہول شخصی مدلس ہے سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
➋ بقیه بن ولید تدلیس تسویہ کا مرتکب ہے سماع بالمسلسل درکار ہے۔
2۔ من طريق عمر بن هارون البلخي عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن أبي أمامة
(الترغيب والترهيب لأبي القاسم الأصبهاني : 248/1 ح : 374)
سند سخت ضعیف ہے۔
➊ عمر بن ہارون بلخی کو امام یحیی بن معین رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم :6 / 141 وسندہ صحیح) نے کذاب۔ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم :141/6) نے ضعیف الحدیث۔ امام نسائی رحمہ اللہ(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 30/5) نے متروک الحدیث۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروکین :368) نے ضعیف کہا ہے۔
➋ منذر بن محمد بن منذر کی توثیق نہیں۔
➌ احمد بن موسیٰ اسدی نامعلوم ہے۔
3۔ عن إبراهيم بن محمد قال : قال ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن أبي الدرداء به موقوفا
(الأم للشّافعي : 485/2 الرقم : 491 السنن الكبرى للبيهقي : 319/3 شعب الإيمان للبيهقي : 308/7 ح : 3438)
سند سخت ضعیف ہے۔
➊ ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی اسلمی ابو اسحاق مدنی متروک ہے۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هو متروك عند الجمهور
جمہور کے نزدیک متروک ہے۔
(ديوان الضعفاء ص13)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ضعفه الجمهور
جمہور نے ضعیف کہا ہے۔
(طَبَقات المدلسين ص (52)
❀ نیز فرماتے ہیں۔
أكثر أهل الحديث على تضعيف إبراهيم بن أبي يحيي
اکثر محدثین ابراہیم بن ابی یحیی کو ضعیف کہتے ہیں۔
(التلخيص الحبير : 22/1)
❀ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ضعفه الجمهور
جمہور نے ضعیف کہا ہے۔
(عمدة القاری : 82/11)
➋ خالد بن معدان کا سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔
(خلاصة الأحكام : 847/2)
دلیل نمبر (2)۔
سیدنا کردوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من أحيا ليلتي العيد وليلة النصف من شعبان لم يمت قلبه يوم تموت القلوب
جس نے عید الفطر عید الاضحی اور پندرہ شعبان کو شب بیداری کی اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے۔
(المعجم لابن الأعرابي : 1047/3 ح : 2252 معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني : 2414/5 ح : 5908 العلل المتناهية لابن الجوزي: 71/2-72 ح : 924)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
سند سخت ضعیف ہے۔
➊ عیسی بن ابراہیم بن طہمان قرشی کو امام یحیی بن معین رحمہ اللہ (تاريخ يحيي بن معين برواية الدوري : 462/2) نے لَيْسَ بِشَيْءٍ. امام بخاری رحمہ اللہ (التاريخ الكبير : 407/6) اور امام نسائی رحمہ اللہ نے (الضعفاء والمتروكون : 448) منکر الحدیث کہا ہے۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے متروک الحدیث کہا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 272/6)
➋ سلمہ بن سلیمان جزری کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ليس هو بذلك المعروف إنما يحدث عنه علي بن حرب وابن أبي العوام الرياحي وبعض ما يرويه لا يتابعه عليه أحد
روایت میں معروف نہیں اس سے علی بن حرب اور ابن ابی العوام ریاحی روایت کرتے ہیں اس کی بعض روایات کی کسی نے متابعت نہیں کی۔
(الكامل في ضعفاء الرّجال : 364/4 – 365 طبع دار الكتب العلمية)
نوٹ۔
الکامل فی ضعفاء الرجال طبع دار الفکر سے اس کے حالات زندگی گر گئے ہیں۔
➌ مروان بن سالم غفاری ابو عبد اللہ جزری متروک ہے۔
➍ ابن کردوس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
➎ مفضل بن فضالہ ضعیف ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وفيه آفات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت نہیں اس میں کئی علتیں ہیں۔
(العلل المتناهية : 72/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث منكر مرسل
منکر اور مرسل ہے۔
(میزان الاعتدال : (308/3)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
في إسناده مروان بن سالم وهو تالف
اس کی سند میں مروان بن سالم ہے جو سخت ترین ضعیف ہے۔
(التلخيص الحبير : 161/2)
دلیل نمبر (3)۔
1۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من صلى ليلة الفطر والأضحى لم يمت قلبه يوم تموت القلوب
جس نے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی رات نماز پڑھی اس کا دل اس (وحشت والے) دن زندہ رہے گا جس دن لوگوں کے دل (قیامت کی ہولناکی کی وجہ سے مردہ ہو جائیں گے۔
(المعجم الكبير للطبراني كما في الترغيب والترهيب للمنذري : 152/2 المعجم الأوسط للطبراني : 57/1 ح : 159)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
سند باطل ہے۔
➊ عمر بن ہارون بھٹی متروک ہے۔
➋ خالد بن معدان کا سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
2۔ من طريق بشر بن رافع عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن عبادة بن الصامت
(الحسن بن سفيان كما في التلخيص الحبير لابن حجر : 160/2-161)
سند ضعیف ہے۔
➊ بشر بن رافع حارثی کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ۔ امام نسائی رحمہ اللہ اور امام دار قطنی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
➋ خالد بن معدان کا سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
دلیل نمبر (4)۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من أحيا الليالي الأربع وجبت له الجنة ليلة التروية وليلة عرفة وليلة النحر وليلة الفطر
جس نے ترویہ عرفہ عید الاضحی اور عید الفطر کی چار راتیں عبادت کی اس پر جنت واجب ہوگئی۔
(تاريخ دمشق لابن عساكر : 92/43-93 الترغيب والترهيب لأبي القاسم الأصبهاني : 248/1-249 ح : 374)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
سند باطل ہے۔
➊ عبد الرحمن بن زید گمی بصری متروک و کذاب ہے۔
➋ زید بن حواری عمی ضعیف ہے۔
(تقريب التهذيب لابن حجر : 2131)
➌ وہب بن منبہ رحمہ اللہ اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئے اور وہب بن منبہ رحمہ اللہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔
➍ سوید بن سعید حدثانی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
صدوق في نفسه إلا أنه عمي فصار يتلقن ما ليس من حديثه
یہ صدوق تھا نابیں ہونے کے بعد تلقین قبول کر لیتا تھا۔
(تقريب التهذيب : 2690)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث لا يصح
یہ حدیث ثابت نہیں۔
(العلل المتناهية : 78/2)
دلیل نمبر (5)۔
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
مامن عبد يصلي ليلة العيد ست ركعات إلا شفع في أهل بيته كلهم قد أوجبت له النار
جو بھی عید کی رات چھ رکعت نماز ادا کرتا ہے وہ اپنے ان گھر والوں کی سفارش کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوگی۔
(الغرائب المُلتقطة لابن حجر : 13/6 ذيل اللآلي المصنوعة للسيوطي ص113)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
جھوٹی سند ہے۔
➊ اسماعیل بن ابی زیاد سکونی کے متعلق امام ابوزرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
يروي أحاديث مفتعلة
بناوٹی روایتیں بیان کرتا ہے۔
(سؤالات البرذعي : 373/2)
❀ امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
يضع الحديث كذاب متروك
حدیث گھڑنے والا جھوٹا اور متروک ہے۔
(الضعفاء والمتروكون الرقم : 85)
❀ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے کذاب کہا ہے۔
(ذيل الآلي المصنوعة ص 113)
➋ اسماعیل بن فضل کے حالات زندگی نہیں ملے۔
➌ سحو یہ بن شبیب کے حالات زندگی نہیں ملے۔
➍ عاصم کا تعین نہیں۔
➎ سلیمان بن طرخان تیمی رحمہ اللہ کا عنعنہ ہے۔
دلیل نمبر (6)۔
سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ليلة الفطر ليلة رحمة يعتق الله فيها الرقاب فمن سجد في تلك الليلة سجدتين كتب الله تعالى له من الثواب كمن صام رمضان من صغير أو كبير أو ذكر أو أنثى ويعطيه الله الثواب من صلى يوم الفطر في الجماعة من المشرق من المغرب
عید الفطر کی رات شب رحمت ہے اللہ تعالیٰ اس رات لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے جو اس رات دو سجدے کرتا ہے اسے چھوٹے بڑے مرد یا عورت (تمام انسانوں) کے رمضان المبارک کے رکھے ہوئے روزوں کی مثل ثواب ملے گا جو عید الفطر کی نماز با جماعت ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مشرق و مغرب کے برابر ثواب دے گا۔
(ذيل الآلي المصنوعة للسيوطي ص113)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
جھوٹی سند ہے۔
➊ محمد بن علی ربیع کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➋ عطاء بن محمد کا تعین نہیں ہوسکا۔
❀ علامہ ابن عراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه محمد بن عطاء ومحمد بن علي الربيع لم أعرفهما
”اس کی سند میں محمد بن عطاء اور محمد بن علی ربیع دونوں کو میں نہیں جانتا۔“
(تنزيه الشريعة : 127/2)
➌ اسحاق بن طلحہ بن عبید اللہ مجہول الحال ہے۔
دلیل نمبر (7)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي بعثني بالحق إن جبريل عليه السلام أخبرني عن إسرافيل عن ربه عزوجل أنه من صلى ليلة الفطر مائة ركعة، يقرأ في كل ركعة الحمد مرة وقل هو الله أحد عشر مرات ويقول في ركوعه وسجوده عشر مرات: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر فإذا فرغ من صلاته استغفر مائة مرة ثم يسجد ثم يقول: يا حي يا قيوم يا ذا الجلال والإكرام يا رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما يا أرحم الراحمين يا إله الأولين والآخرين اغفر لي ذنوبي وتقبل صومي وصلاتي، والذي بعثني بالحق إنه لا يرفع رأسه من السجود حتى يغفر الله عزوجل له ويتقبل منه شهر رمضان ويتجاوز عن ذنوبه وإن كان قد أذنب سبعين ذنبا كل ذنب أعظم من جميع النار
اس ذات کی قسم، جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا! مجھے جبرائیل نے اسرافیل کے واسطے سے بیان کیا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا: جو عید الفطر کی رات سو رکعت نماز ادا کرتا ہے، ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورت فاتحہ اور دس بار سورت اخلاص پڑھتا ہے، رکوع اور سجود میں دس بار سبحان الله الحمد لله لا اله الا الله والله اكبر پڑھتا ہے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد سو مرتبہ استغفراللہ پڑھتا ہے، پھر سجدہ کرتا ہے اور اس میں یہ دعا پڑھتا ہے: اے زندہ اور قائم! بزرگی اور عزت والے! دنیا و آخرت میں رحم کرنے والے! سب سے زیادہ رحیم! اگلوں اور پچھلوں کے معبود! میرے گناہوں کو بخش دے، میرے روزے اور نماز قبول فرما۔ اس ذات کی قسم، جس نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے! سجدے سے سر اُٹھانے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، رمضان المبارک کے روزوں کو شرف قبولیت سے نوازتا ہے، اس کے گناہوں سے درگزر کرتا ہے، اگر چہ اس کے ستر گناہ ہوں اور ہر گناہ جہنم کی پوری آگ سے زیادہ بڑا ہو۔
(الموضوعات لابن الجوزي : 446-445/2، ح : 1015)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
جھوٹی روایت ہے۔
➊ ابوزکریا یحیی بن القاسم کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➋ محمد بن ابی صالح کے بھی حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➌ عمر بن محمد بن علی بن صباح بزاز کی توثیق نہیں۔
➍ ابو طیبہ عیسی بن سلیمان بن دینار جرجانی کو امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 256/5)
❀ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذه الأحاديث لكرز بن وبرة يرويها عنه أبو طيبة وهي كلها غير محفوظة
”یہ احادیث ابوطیبہ کے حوالے سے کرز بن وبرہ سے مروی ہیں اور سب غیر محفوظ ہیں۔“
(الكامل في ضعفاء الرجال : 258/5)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث لا نشك في وضعه، وفيه جماعة لا يعرفون أصلا
”بلا شبہ یہ حدیث من گھڑت ہے، اس میں لا پتہ راویوں کی ایک جماعت ہے۔“
(الموضوعات : 447/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رواه أبو الفتح القواس، ثنا عمر بن محمد الصباح، ثنا يحيى بن قاسم، ثنا محمد بن أبي صالح، عن سعد بن سعد، فلا أدري من وضعه منهم
”اس روایت کو ابو الفتح قواس نے عمر بن محمد صباح سے، اس نے یحیی بن قاسم سے، اس نے محمد بن ابی صالح سے اور اس نے سعد بن سعد سے بیان کیا ہے، کوئی پتہ نہیں ان میں سے کس نے یہ روایت گھڑی ہے۔“
(تلخيص الموضوعات، الرقم : 439)
دلیل نمبر (8)
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى ليلة النحر ركعتين يقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب خمس عشرة مرة وقل هو الله أحد خمس عشرة مرة وقل أعوذ برب الفلق خمس عشرة مرة وقل أعوذ برب الناس خمس عشرة مرة، فإذا سلم قرأ آية الكرسي ثلاث مرات ويستغفر الله خمس عشرة مرة، جعل الله اسمه في أصحاب الجنة وغفر له ذنوب السر وذنوب العلانية وكتب له بكل آية قرأها حجة وعمرة، وكأنما أعتق ستين رقبة من ولد إسماعيل، فإن مات فيما بينه وبين الجمعة الأخرى مات شهيدا
”جو عید قربان کی رات دو رکعت ادا کرتا ہے، ہر رکعت میں سورت فاتحہ، سورت اخلاص، سورت فلق اور سورت ناس سب سورتیں پندرہ پندرہ مرتبہ پڑھتا ہے، جب سلام پھیر کر تین مرتبہ آیۃ الکرسی اور پندرہ بار استغفر اللہ پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا نام جنتیوں میں شامل کر دیتے ہیں، اس کے پوشیدہ اور ظاہری گناہ معاف فرما دیتے ہیں، اس کے لیے ہر آیت کے بدلے حج وعمرہ کا ثواب لکھ دیتے ہیں، وہ اس شخص کی مانند ہے، جس نے اولاد اسماعیل کے ساٹھ غلام آزاد کیے، اگر اس جمعہ سے دوسرے جمعہ کے درمیان فوت ہو گیا تو وہ شہادت کی موت مرا۔“
(الموضوعات لابن الجوزي : 451-450/2، ح : 1019، مثير العزم الساكن لابن الجوزي : 275/1-276، ح : 160)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
جھوٹی روایت ہے۔
➊ احمد بن محمد بن غالب باہلی بصری المعروف غلام خلیل وضاع (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا) اور دقبال (بڑے درجے کا جھوٹا) تھا۔
➋ ولید بن مسلم کی تدلیس تسویہ ہے۔
➌ محمد بن علی بن حسین بن ابی الجراح قطوانی کے حالات نہیں ملے۔
➍ علی بن حسین بن ابی الجراح بھی نامعلوم ہے۔
➎ اسحاق بن احمد بن عبد اللہ کا تعین و توثیق نہیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث لا يصح
”یہ حدیث ثابت نہیں۔“
(الموضوعات : 451/2)
تنبیہ :
خالد بن معدان رحمہ اللہ سے مروی ہے:
خمس ليال في السنة من واظب عليهن رجاء ثوابهن وتصديقا بوعدهن أدخله الله الجنة، أول ليلة من رجب يقوم ليلها ويصوم نهارها وليلة النصف من شعبان يقوم ليلها ويصوم نهارها وليلة الفطر يقوم ليلها ويصوم نهارها وليلة الأضحى يقوم ليلها ويصوم نهارها وليلة عاشوراء يقوم ليلها ويصوم نهارها
”سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جو ان میں ثواب کی نیت اور ان میں کیے گئے وعدے کو سچا جان کر نماز پڑھتا ہے، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ رجب کی پہلی رات ہے، جو اس رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔ پندرہ شعبان کی رات، جو اس رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔ لیلہ الفطر کی رات، جو اس میں قیام اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔ عید الاضحیٰ کی رات، جو اس میں قیام اور دن کو روزہ رکھتا ہے اور عاشورا کی رات جو اس میں قیام اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔“
(فضائل شهر رجب للحسن بن محمد الخلال، ص 75، الرقم : 17)
جھوٹا قول ہے۔
➊ سلمہ بن موسیٰ فارسی کی توثیق نہیں مل سکی۔
➋ ابو موسیٰ ہلالی کو امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے ”مجہول“ کہا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 438/9)
لہذا یہ قول نا قابل حجت اور نا قابل استدلال ہے۔
❀ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ) فرماتے ہیں:
قد ورد في خصوص إحياء ليلتي العيدين أحاديث لا تصح
”عیدین کی راتوں میں بہ طور خاص عبادت کے بارے میں منقول روایات ثابت نہیں۔“
(لطائف المعارف، ص 462)
فائدہ نمبر (1)
عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی راتوں کی فضیلت میں دو جھوٹی روایتیں آتی ہیں۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يفتح الله الخير في أربع ليال سرا: الأضحى، والفطر، وليلة النصف من شعبان، وليلة عرفة إلى الأذان
”عید الاضحی، عید الفطر، پندرہ شعبان اور عرفہ کی راتوں میں اللہ تعالیٰ اذانِ فجر تک رحمت کے دروازے کھلے رکھتا ہے۔“
(لسان الميزان لابن حجر : 582/1، مثير العزم الساكن لابن الجوزي : 242/1، ح : 119)
❀ امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يصح ومن دون مالك ضعفاء
”یہ روایت ثابت نہیں، امام مالک رحمہ اللہ سے نیچے تمام راوی ضعیف ہیں۔“
(لسان الميزان لابن حجر : 582/1)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
(میزان الاعتدال : 154/2)
فائدہ نمبر (2)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليلة جمع تعدل ليلة القدر
”عید الاضحیٰ کی رات لیلتہ القدر کے برابر ہے۔“
(مثير العزم الساكن لابن الجوزي : 273/1-274، ح : 154)
جھوٹی روایت ہے۔
عثمان بن ہارون اور ابو عمر وقتاد کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
فائدہ نمبر (3)
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى يوم الفطر بعد ما يصلي عيده أربع ركعات، يقرأ في أول ركعة بفاتحة الكتاب وسبح اسم ربك الأعلى وفي الثانية بالشمس وضحاها، وفي الثالثة والضحى، وفي الرابعة قل هو الله أحد، فكأنما قرأ كل كتاب الله تعالى على أنبيائه، وكأنما أشبع جميع اليتامى ودهنهم ونظفهم، وكان له من الأجر مثل ما طلعت عليه الشمس ويغفر له ذنوب خمسين سنة
”جو عید الفطر کے دن نماز عید کے بعد چار رکعت ادا کرتا ہے، پہلی رکعت میں سورت فاتحہ اور سورت اعلیٰ، دوسری میں سورت شمس، تیسری میں سورت ضحیٰ اور چوتھی میں سورت اخلاص تلاوت کرتا ہے، گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی اپنے انبیائے کرام پر نازل کردہ تمام کتابیں پڑھ دی ہیں اور گویا کہ اس نے تمام یتیم بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا، انہیں تیل لگایا اور پاک صاف کیا، نیز اسے ہر اس چیز کے برابر اجر ملے گا، جس پر سورج طلوع ہوتا ہے اور اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
(الموضوعات لابن الجوزي : 447/2)
جھوٹی روایت ہے۔
➊ محمد بن احمد بن صدیق کی توثیق نہیں مل سکی۔
➋ ابوبکر احمد بن جعفر مروزی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➌ یعقوب بن عبد الرحمن ہو سکتا ہے کہ ابو یوسف جصاص ہو، اس کے بارے میں ابومحمد بن غلام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بالمرضي
”یہ پسندیدہ نہیں۔“
(سؤالات السهمي، ص 261، الرقم : 380)
❀ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
في حديثه وهم كثير
”اس کی حدیث میں بہت زیادہ وہم ہے۔“
(تاريخ بغداد : 431/16)
➍ عبد اللہ بن محمد بن ربیعہ قدامی کے متعلق حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحد الضعفاء، أتى عن مالك بمصائب
”ضعیف ہے، امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب مصیبتیں ذکر کرتا ہے۔“
(ميزان الاعتدال : 488/2)
➎ سلیمان بن طرخان تیمی رحمہ اللہ کا عنعنہ ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
موضوع، فيه مجاهيل
”من گھڑت ہے، اس میں مجہول راویوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔“
(الموضوعات : 447/2)
عبد اللہ بن محمد بن ربیعہ کی متابعت سلمہ بن شبیب نے کی ہے۔
(اللالي المصنوعة للسيوطي : 61/2)
لیکن یہ سند بھی جھوٹی ہے۔ اس میں عبداللہ بن محمد بن شیبہ اور اس کے استاذ فضل بن محمد جندی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
❀ علامہ ابن عراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سلمة بن شبيب من رجال مسلم والأربعة لكن الراوي عنه الفضل بن محمد الجندي لم أعرفه فلعله سرقه، وركبه على هذا الإسناد فليحزر حاله والله أعلم
”سلمہ بن شبیب صحیح مسلم اور سنن اربعہ کا راوی ہے، لیکن اس کا شاگرد فضل بن محمد جندی مجہول ہے، شاید اسی نے یہ روایت چرا کر اس سند سے جوڑ دی ہے، اس سے اس کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔“
(تنزيه الشريعة : 95/2)
❀ علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يتبين لي أمرها، وهو على كل حال منكر سندا ومتنا
”مجھ پر اس کا معاملہ واضح نہیں ہو سکا، بہر حال یہ روایت سند اور متن کے لحاظ سے منکر ہے۔“
(حاشية الفوائد، ص 64)
الحاصل:
عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں، فضیلت وہی ہوتی ہے، جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو، اسی طرح ان کی راتوں کو عبادت کرنا ثابت نہیں۔ اس بارے میں منقول روایات کا حال آپ نے جان لیا ہے، سخت ترین ضعیف اور جھوٹی سندوں کو جوڑ کر ان کو تقویت دینا بے فائدہ اور بے کار ہے۔