سوال
علمائے دین اور مفتیانِ دین شرح متین کی بارگاہ میں عرض ہے کہ چار رکعت والی نماز (جیسے ظہر و عصر وغیرہ) میں دو رکعت کے بعد قعدہ میں صرف تشہد پڑھنا ہوتا ہے یا درود اور دعا بھی، جیسا کہ آخری قعدہ میں پڑھا جاتا ہے؟ بینوا وتوجروا۔
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول اللہ، أما بعد!
احادیث کے مطابق پہلے قعدہ میں درود شریف
صحیح احادیث مرفوعہ کے عموم اور اطلاق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلے قعدہ میں بھی درود شریف پڑھنا جائز ہے۔ ان احادیث میں سے چند درج ذیل ہیں:
➊ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! ہمیں سلام پڑھنے کا طریقہ معلوم ہے، مگر ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: یوں کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ (صحیح مسلم: باب الصلوة علی النبی ﷺ، ج ۱، ص ۱۷۵)
➋ حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ (صحیح البخاری: ج ۱، ص ۴۷۷)
ابن خزیمہ نے مزید یہ الفاظ بھی روایت کیے: "فکیف نصلی علیك إذا نحن صلینا علیك فی صلاتنا”
اور یہ زیادتی ابن حبان، دارقطنی، حاکم نے بھی روایت کی ہے اور ابوحاتم اور ابن خزیمہ نے اپنی اپنی صحیح میں نقل کی ہے۔ (سبل السلام: ج ۱، ص ۱۹۳، النووی: ج ۱، ص ۱۷۵)
ائمہ کے اقوال
✿ امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نماز میں درود پڑھیں تو یہی الفاظ پڑھیں: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ
✿ امام محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی لکھتے ہیں:
"حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھنا واجب ہے، کیونکہ قولوا (کہو) کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت، ائمہ اسلام، امام شافعی اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔” (سبل السلام: ج ۱، ص ۱۹۳)
✿ امام نووی فرماتے ہیں:
"امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک نماز میں درود واجب ہے۔ اگر درود چھوڑ دیا جائے تو نماز صحیح نہیں ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور امام شعبی کا بھی یہی قول ہے۔” (نووی: ج ۱، ص ۱۸۵)
✿ امام شوکانی وضاحت کرتے ہیں:
"قولوا کے صیغے سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ تشہد کے بعد درود واجب ہے۔ حضرت ابن عمر، ابن مسعود رضی اللہ عنہم، جابر بن زید، شعبی، محمد بن کعب، ابو جعفر باقر، معادی، قاسم، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق اور ابن مواز رحمہم اللہ اسی طرف گئے ہیں۔” (نیل الاوطار: ج ۲، ص ۳۱۸)
تخصیص (صرف آخری تشہد میں درود پڑھنے کی رائے)
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ درود صرف آخری تشہد میں پڑھا جائے، پہلے تشہد میں نہیں۔ لیکن:
✿ امام شوکانی اس تخصیص کی سخت تردید کرتے ہیں کہ یہ نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور نہ ضعیف حدیث سے۔ (نیل الاوطار: ج ۲، ص ۱۸)
✿ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نبی اکرم ﷺ نے درود شریف کو کسی ایک تشہد کے ساتھ خاص نہیں کیا۔ اس لیے پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنا جائز ہے۔ امام شافعی نے اپنی کتاب ’الام‘ میں اس کی وضاحت کی ہے اور ان کے اصحاب کے نزدیک بھی یہی صحیح ہے۔” (صفۃ الصلوۃ للشیخ الالبانی: ص ۱۳۲، ۱۴۳)
دعا کے الفاظ کا اضافہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں:
ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ، فَلْيَدْعُ بِهِ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ
(نیل الاوطار: ج ۲، ص ۲۸۱)
یعنی "تشہد کے بعد بندہ اپنی پسندیدہ دعا اپنے رب سے مانگے۔”
خلاصہ کلام
◈ پہلے تشہد میں درود نہ پڑھنے والوں کے پاس کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں۔
◈ ان کے پاس صرف حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی دو روایتیں ہیں، ایک ضعیف اور دوسری موقوف (یعنی صحابی کا اپنا قول، مرفوع نہیں)۔
◈ مذکورہ بالا صحیح احادیث کے عموم سے یہ بات واضح ہے کہ پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنا درست اور مشروع عمل ہے۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب۔