پیش لفظ: کتاب دین میں تقلید کا مسئلہ از شیخ زبیر علی زئی
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب دین میں تقلید کا مسئلہ سے ماخوذ ہے۔

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
آنکھیں بند کر کے، بے سوچے سمجھے، بغیر دلیل اور بغیر حجت کے کسی غیر نبی کی بات ماننا (اور اسے اپنے آپ پر لازم سمجھنا) تقلید (مطلق) کہلاتا ہے۔
تقلید کی ایک قسم تقلید شخصی ہے جس میں مقلد زبانِ حال سے (عمل) یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ” مسلمانوں پر ائمہ اربعہ (مالک، شافعی، احمد اور ابوحنیفہ) میں سے صرف ایک امام (مثلاً پاکستان و ہندوستان میں امام ابو حنیفہ) کی (بے دلیل و اجتہادی آراء کی) تقلید واجب (ضروری) ہے اور باقی تین اماموں کی تقلید حرام ہے۔“
تقلید کی یہ دونوں قسمیں باطل و مردود ہیں جیسا کہ قرآن، حدیث، اجماع اور آثار سلف صالحین سے ثابت ہے۔
استاد محترم حافظ زبیر علی زئی حفظ اللہ نے تقلید (شخصی و غیر شخصی) کے رد پر ایک تحقیقی مضمون لکھا، جسے الحدیث حضرو کی پانچ قسطوں میں شائع کیا گیا (عدد: 8 تا 12)۔
اب افادہ عام کے لئے اس تحقیقی مضمون کو معمولی اصلاح اور اضافے کے ساتھ عامة المسلمین کی خیر خواہی کے لئے شائع کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے لوگوں کو تقلید کے اندھیروں سے نکال کر: قرآن، حدیث اور اجماع پر علی فہم السلف الصالحین گامزن فرما دے۔ آمین
والله على كل شيء قدير

تنبیہ:

اہل حدیث (محدثین اور ان کے عوام) کا آل تقلید (مثلاً دیوبندی، بریلوی اور ان اور ان جیسے دوسرے لوگوں) کے ساتھ ایمان، عقائد اور اصول کے بعد ایک بنیادی اختلاف مسئلہ تقلید شخصی پر ہے۔ تقلیدی حضرات اس بنیادی اختلافی موضوع سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اور چالاکی سے تقلید مطلق پر بحث و مباحثہ اور مناظرے جاری رکھتے ہیں مگر تقلید شخصی پر کبھی بحث و مباحثہ اور تحقیق کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اشرف علی تھانوی صاحب، جن کے پاؤں دھو کر پینا (دیوبندیوں کے نزدیک) نجات اخروی کا سبب ہے۔ (دیکھئے تذکرة الرشید ج 1 ص 113) فرماتے ہیں: مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔ (تذکرة الرشید ج 1 ص 131)
تقلید شخصی کے بارے میں محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
”یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا، بلکہ ایک انتظامی فتویٰ تھا۔“
(تقلید کی شرعی حیثیت ص 65 طبع ششم 1413ھ)
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اس غیر شرعی حکم کو ان لوگوں نے اپنے آپ پر واجب قرار دیا اور کتاب و سنت سے دور ہوتے گئے۔
احمد یار نعیمی (بریلوی) لکھتے ہیں:
”شریعت و طریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اسی طرح قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں۔“
(جاء الحق ج 1 ص 222 طبع قدیم، بدعت کی قسموں کی پہچانیں اور علامتیں)
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ اپنے بدعتی ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود، بدعات کی تقسیم کر کے بعض بدعات کو اپنے سینوں پر سجائے بیٹھے ہیں۔
اب تقلید (شخصی و غیر شخصی) پر تفصیلی و با دلیل رد کے لئے اس کتاب ”دین (اسلام) میں تقلید کا مسئلہ“ کا مطالعہ شروع کریں۔
وما علينا إلا البلاغ
فضل اکبر کاشمیری (13 ربیع الاول 1427ھ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1