اسی قسم کی ایک اور روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے چھوٹے بھائی عبداللہ جب پیدا ہوئے تو ان کے چہرے پر سورج کی سی روشنی تھی۔ اور والد نے ایک دفعہ خواب دیکھا۔ بنو کی ایک کاہنہ نے یہ خواب سن کر یہ پیشین گوئی کی کہ اس لڑکے کی پشت سے ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا۔ جو تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ جب آمنہ کے شکم سے بچہ پیدا ہوا۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ ولادت کے اثنا میں تم کو کیا کچھ نظر آیا۔ انہوں نے کہا : جب مجھے درد ہونے لگا تو میں نے بڑے زور کی آواز سنی جو انسانوں کی آواز کی طرح نہ تھی۔ اور سبز ریشم کا پھریرا یاقوت کے ڈنڈے میں لگا ہوا آسمان و زمین کے بیچ میں کڑا نظر آیا۔ اور میں نے دیکھا کہ بچہ کے سر سے روشنی کی کرنیں نکل نکل کر آسماں تک جاتی ہیں۔ شام کے تمام محل آگ کا شعلہ معلوم ہوتے تھے۔ اور اپنے پاس مرغابیوں کا ایک جھنڈ نظر آیا۔ اس نے بچے کو سجد ہ کیا۔ پھر اپنے پروں کو کھول دیا۔ اور سعیرہ اسدیہ کو دیکھا کہ وہ کہتی ہوئی گزری کہ تیرے اس بچہ نے بتوں اور کاہنوں کو بڑا صدمہ پہنچایا۔ ہائے سعیرہ ہلاک ہو گئی۔ پھر ایک بلند و بالا سپید رنگ جوان نظر آیا۔ جس نے بچے کو میرے ہاتھ سے لے لیا۔ اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن لگایا۔ اس کے ہاتھ میں سونے کا طشت تھا اس نے بچہ کے پیٹ کو پچھاڑا۔ پھر اس کے دل کو نکالا۔ اس میں سے ایک سیاہ داغ نکال کر پھینک دیا۔ پھر سبز حریر کی تھیلی کھولی۔ اس میں سے ایک انگوٹھی نکال کر مونڈھے کے برابر مہر لگائی اور اس کو ایک کرتہ پہنا دیا۔ اے عباس ! میں نے یہ دیکھا۔
تحقیق الحدیث :
اس روایت کو لکھنے کے بعد سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں :
اس روایت سے متعلق ہمیں کچھ زیادہ کہنا نہیں ہے کہ ناقلین نے اس کے ضعف کو خود تسلیم کیا ہے، اور سیوطی نے لکھا ہے کہ : اس روایت اور اس سے پہلے کی دو روایتوں میں سخت نکارت ( یعنی منکر باتیں) ہے۔ اور میں نے اپنی اس کتاب خصائص میں ان تینوں سے زیادہ منکر کوئی روایت نقل نہیں کی (یعنی ہماری کتاب میں منکرات تو بہت ہیں لیکن وہ اتنے اعلٰی پیمانہ کی نہیں ہیں ) اور میرا دل ان کے لکھنے کو نہیں چاہتا تھا۔ لیکن میں نے محض ابونعیم کی تقلید میں لکھ دیا ہے۔ (یعنی اگر ابونعیم گڑھے میں نہ گر تے تو میں بھی نہ گرتا)۔
جن روایتوں کو سیوطی لکھنے کے قابل نہ سمجھیں۔ آپ ان کے ضعف کے درجہ کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ سیوطی کی کتابوں کا درار و مدار ہی ضعیف روایتوں پر ہے۔
سیوطی اس روایت کا ماخذ ابو نعیم کو بتاتے ہیں۔ مگر یہ روایت مجھے دلائل ابی نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ملی۔
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دو سال بڑے تھے۔ جب آمنہ نے وفات پائی تو وہ سات آٹھ برس کے بچہ ہوں گے۔