پہلے قعدہ میں تشہد
تحریر: ابوعبداللہ صارم حفظ اللہ

نماز کی دو رکعتیں مکمل کرنے کے بعد بیٹھنا قعدہ کہلاتا ہے۔ چار رکعتوں والی نماز میں دو قعدے ہوتے ہیں۔ پہلا دو رکعتوں کے بعد اور دوسرا چار رکعتیں مکمل کرنے کے بعد۔
قعدہ پہلا ہو یا دوسرا اس میں تشہد (التحيات۔۔۔،جس میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت ہوتی ہے ) پڑھا جاتا ہے۔ تشہد سے زائد مثلاً درود پڑھنا اور دُعا کرنا صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے یا پہلے تشہد میں بھی اس کی اجازت ہے ؟ اسی سوال کا جواب دینے کے لیے یہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

ہماری تحقیق میں پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کر لیا جائے یا تشہد سے زائد بھی کچھ پڑھ لیا جائے، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر پہلے تشہد میں درود پڑھا گیا، تو سجدۂ سہو لازم آ جائے گا، ان کی بات بے دلیل ہے، کیونکہ دونوں طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے ثابت ہیں، ملاحظہ فرمائیں :

تشہد پر اقتصار و اکتفا :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشہد سکھایا۔ ان کے ایک شاگرد اسود بن یزید بیان کرتے ہیں :
ثم إن كان فى وسط الصلاة؛ نهض حين يفرغ من تشهده، وإن كان فى آخرها؛ دعا بعد تشهده ما شائ اللہ أن يدعو، ثم يسلم
”آپ اگر نماز کے درمیانے تشہد میں ہوتے تو تشہد سے فارغ ہوتے ہی (اگلی رکعت کے لیے) کھڑے ہو جاتے اور اگر آخری تشہد میں ہوتے، تو تشہد کے بعد جو دعا مقدر میں ہوتی، کرتے، پھر سلام پھیرتے۔“ [مسند الإمام احمد :459/1، و سندهٔ حسن]
↰ امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ (708) نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
امام موصوف اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
باب الاقتصار فى الجلسة الأولى على التشهد، وترك الدعاء بعد التشهد الأول.
”اس بات کا بیان کہ پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کرنا اور دعا کو ترک کرنا جائز ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة : 708]

➋ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يزيد فى الركعتين على التشهد.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد (عام طور پر) تشہد سے زیادہ نہیں پڑ ھتے تھے۔“ [ مسند أبى يعلى الموصلي: 4373، وسندہ صحيح]

تنبیھات :
➊ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا جلس فى الركعتين الـأوليين، كأنه على الرضف
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں کے بعد (تشہد کے لیے بیٹھتے )، تو (بہت جلد اٹھنے کی وجہ سے ) ایسے لگتا کہ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں۔“ [مسند احمد : 386/1، سنن ابي داود 995، سنن الترمذي : 366]
↰ اس کی سند ’’ مرسل“ ہونے کی وجہ سے ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
ابوعبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والراجح أنه لا يصح سماعه من أبيه
”راجح بات یہی ہے کہ ابوعبیدہ کا اپنے والدِ گرامی سے سماع ثابت نہیں۔“ [تقريب التهذيب : 8231]
◈نیز فرماتے ہیں :

فإنه عند الـأكثر لم يسمع من أبيه
”جمہور اہل علم کے نزدیک انہوں نے اپنے والد گرامی سے سماع نہیں کیا۔“ [موافقة الخبر الخبر : 364/1]
لہذا امام حاکم رحمہ اللہ [1/ 296] کا اس روایت کو ’’ امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح“ قرار دینا صحیح نہیں۔

◈ اس روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو منقطع، لأن أبا عبيدة لم يسمع من أبيه
”یہ روایت منقطع ہے، کیونکہ ابوعبیدہ نے اپنے والدِ گرامی سے سماع نہیں کیا۔“ [اتلخيص الحبير : 263/1، ح : 406]
↰ دوسری بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تشہد میں دورد پڑھنے کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلا تشہد، دوسرے سے چھوٹا تھا۔ یعنی پہلا تشہد درود سمیت بھی دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا ہو سکتا ہے۔

◈ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250-1173ھ) لکھتے ہیں :
وليس فيه إلا مشروعية التخفيف، وهو يحصل بجعله أخف من مقابله
’’ اس حدیث میں صرف پہلے تشہد کو چھوٹا کرنے کی مشروعیت ہے اور وہ تو اسے دوسرے تشہد کے مقابلے میں چھوٹا کرنے سے حاصل ہو جاتی ہے۔“ [نيل الاوطار : 2/ 333]

➋ تمیم بن سلمہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كان أبو بكر إذا جلس فى الركعتين؛ كأنه على الرضف، يعني حتٰي يقوم
امیر المؤمنین، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے، تو یوں ہوتے جیسے گرم پتھر پر ہوں، حتی کہ اٹہ جاتے۔ ‘‘ [مصنف ابن أبي شيبة : 295/1]
اس کی سند بہی ’’ انقطاع ‘‘ کی وجہ سے ’’ ضعیف ‘‘ ہے، کیونکہ تمیم بن سلمہ کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ [التلخيص الحبير : 263/1، تحت الحديث : 406] کا اس کی سند کو ”صحیح“ قرار دینا صحیح نہیں۔

➌ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
ما جعلت الراحة فى الركعتين إلا للتشهد
’’ دو رکعتوں کے بعد بیٹھنے کا موقع صرف تشہد پڑھنے کے لیے ہے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 295/1]
اس کی سند بھی ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ عیاض بن مسلم راوی ’’ مجہول الحال“ ہے۔
سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 5/ 265] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔

➍ امام حسن بصری رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے :
لا يزيد فى الركعتين الـأوليين على التشهد
نمازی دو رکعتوں کے بعد تشہد سے زیادہ پڑھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 296/1]
یہ قول امام حسن بصری رحمہ اللہ سے ثابت نہیں، کیونکہ حفص بن غیاث ”مدلس“ ہے اور اس نے امام موصوف سے سماع کی کوئی صراحت نہیں کی۔
نیز اس سند میں اشعث راوی کا تعین بھی درکار ہے۔

➎ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من زاد فى الركعتين الـأوليين على التشهد؛ فعليه سجدتا سهو
’’ جس شخص نے دو رکعتوں کے بعد تشہد کے علاوہ کچھ اور پڑھ لیا، اس پر سہو کے دو سجدے لازم ہو جائیں گے۔ [مصنف ابي شيبه : 296/1، وسنده صحيح]
امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ اجہتاد بے دلیل اور صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے خطا پر مبنی ہے۔

پہلے قعدہ میں تشہد کے علاوہ اذکار :
پہلے قعدہ میں تشہد سے زائد اذکار، مثلاً درود، دعا وغیرہ مستحب ہیں، جیسا کہ :
① ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا فى الثامنة، فيذكر اللہ ويحمده ويدعوه، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر اللہ ويحمده ويدعوه، ثم يسلم تسليما يسمعنا
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت (وتر) ادا فرماتے اور صرف آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے تھے۔ پھر اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بجا لاتے اور اس سے دعا کرتے۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت ادا فرماتے۔ پھر بیٹھ جاتے اور اللہ کا ذکر، اس کی حمد اور اس سے دعا کرتے۔ پھر اتنی بلند آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم سن لیتے تھے۔“ [صحيح مسلم : 139/746]

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا :
إذا قعدتم فى كل ركعتين، فقولوا : التحيات للہ، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبى ورحمة اللہ وبركاته، السلام علينا وعلٰي عباد اللہ الصالحين، أشهد أن لا إلٰه إلا اللہ، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، ثم ليتخير أحدكم من الدعائ أعجبه إليه، فليدع به ربه عز وجل
’’ جب تم ہر دو رکعتوں کے بعد بیٹھو، تو یہ کہو : التحيات للہ، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبى ورحمة اللہ وبركاته، السلام علينا وعلٰي عباد اللہ الصالحين، أشهد أن لا إلٰه إلا اللہ، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله پھر ہر شخص وہ دعا منتخب کرے، جو اسے زیادہ محبوب ہو اور اس کے ذریعے اپنے ربّ عزوجل سے مانگے۔“ [مسند الإمام أحمد : 437/1، مسند الطيالسي : 304، سنن النسائي : 1164، المعجم الكبير للطبراني : 47/10، ح : 9912، شرح معاني الآثار للطحاوي : 237/1، وسنده صحيح]
↰ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [720] اور امام ابن حبان [1951] رحمہ اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

③ نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إن عبد اللہ بن عمر كان يتشهد، فيقول : بسم اللہ، التحيات للٰه، الصلوات للٰه، الزاكيات للٰه، السلام على النبى ورحمة اللہ وبركاته، السلام علينا وعلٰي عباد اللہ الصالحين، شهدت أن لا إلٰه إلا اللہ، شهدت أن محمدا رسول اللہ، يقول هٰذا فى الركعتين الـأوليين، ويدعو إذا قضٰي تشهده، بما بدا له
’’ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد میں یہ دعا پڑھتے : بسم اللہ، التحيات للٰه، الصلوات للٰه، الزاكيات للٰه، السلام على النبى ورحمة اللہ وبركاته، السلام علينا وعلٰي عباد اللہ الصالحين، شهدت أن لا إلٰه إلا اللہ، شهدت أن محمدا رسول اللہ پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھنے کے ساتھ جو دل میں آتی، وہ دُعا بھی کرتے۔ “ [الموطا للامام مالك : 191/1، وسنده صحيح]
یعنی جلیل القدر صحابی، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی پہلے قعدہ میں تشہد سے زائد پڑھتے تھے۔
امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ [الام : 1/ 117]

فقہ حنفی اور پہلا تشہد :
فقہ حنفی کے مطابق پہلے تشہد کے ساتھ درود پڑھنے سے سجدۂ سہو لازم آتا ہے۔ [كبيري : 460]
یہ بات صحیح احادیث اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔

الحاصل :
پہلے قعدہ میں تشہد پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے اور تشہد کے علاوہ مثلاً درود اور دُعائیں وغیرہ بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے