سوال
کیا پچھلی امتوں میں مال غنیمت کو آگ آکر لے جاتی تھی؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جی ہاں، پچھلی امتوں میں مال غنیمت کو آگ آکر لے جاتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جسے صحیح البخاری (3124) میں نقل کیا گیا ہے۔
حدیث کا خلاصہ:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بنی اسرائیل کے پیغمبر یوشع علیہ السلام نے جنگ کے لیے اپنی قوم کو تیار کیا اور خاص ہدایات دیں کہ نئی شادی شدہ، نیا گھر بنانے والے یا حاملہ جانور خریدنے والے افراد جنگ میں شامل نہ ہوں۔
جب وہ دشمن کی بستی کے قریب پہنچے تو سورج غروب ہونے والا تھا۔ یوشع علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی کہ سورج کو روکا جائے، اور اللہ نے سورج کو روک دیا یہاں تک کہ فتح حاصل ہو گئی۔
جب مال غنیمت کو جمع کیا گیا تو آگ اسے جلا کر لینے کے لیے آئی، لیکن مال غنیمت کو نہ لے سکی۔ اس پر یوشع علیہ السلام نے کہا کہ قوم میں کسی نے غنیمت میں خیانت (چوری) کی ہے۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ کسی نے سونے کا ایک ٹکڑا چوری کیا ہے۔ جب وہ سونا لایا گیا تو آگ نے اسے جلا دیا اور غنیمت کو قبول کر لیا۔
ہمارے لیے غنیمت حلال کیسے ہوئی؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھتے ہوئے ہمیں مال غنیمت حلال کر دیا، جبکہ پچھلی امتوں کے لیے یہ طریقہ نہیں تھا۔
“ثم أحل الله لنا الغنائم رأى ضعفنا وعجزنا فأحلها لنا”
"پھر اللہ نے ہمارے لیے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا، کیونکہ اس نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھا، تو اسے ہمارے لیے حلال کر دیا۔”
(صحیح البخاری: 3124)
نتیجہ:
- پچھلی امتوں کے لیے مال غنیمت تب ہی قبول کیا جاتا تھا جب آگ آ کر اسے جلا دیتی۔
- خیانت کی صورت میں آگ مال غنیمت کو قبول نہیں کرتی تھی۔
- امت محمدیہ ﷺ کے لیے اللہ نے مال غنیمت کو بطور حلال کر دیا، جو ہمارے لیے ایک خاص رحمت ہے۔