وراثت کا شرعی مسئلہ: 50 سال پرانے ترکہ کی تقسیم کی شرعی حیثیت
سوال:
ایک شخص نے مسئلہ کی وضاحت یوں طلب کی ہے:
میرے والد محترم پاکستان بننے سے پہلے وفات پا گئے تھے۔ ان کی وفات کے وقت ملکی قانون اور شریعت دونوں کے تحت وراثت کی تقسیم ممکن تھی، لیکن میری والدہ نے ساری جائیداد میرے چھوٹے بھائی کے نام منتقل کروا دی۔ اس وقت میں، میری بڑی بہن، اور ایک اور بھائی نابالغ تھے۔ اب اس واقعے کو پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران میں اور میری بہن نے کبھی اپنے وراثتی حصے کا مطالبہ نہیں کیا، نہ ہی ہم نے اپنے حصے معاف کیے، اور نہ ہی ہبہ کیے۔
اب سوال یہ ہے:
✿ کیا اتنے طویل عرصے بعد بھی ہم اپنے بھائی سے اپنا شرعی حصہ طلب کر سکتے ہیں؟
✿ کیا وہ لوگ جنہوں نے ملکی قانون کے مطابق جائیداد میرے بھائی کے نام منتقل کروائی، شریعت کی موجودگی میں گناہگار ہیں؟
✿ اگر وہ گناہگار ہیں اور اب وہ وفات پا چکے ہیں، تو کیا ان کے گناہ کا بوجھ ہلکا کرنے کا کوئی شرعی طریقہ ہے؟
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
سوال کے جواب میں شرعی دلائل اور احکامات کی روشنی میں درج ذیل نکات واضح کیے جا رہے ہیں:
1. آپ اور آپ کی بہن کا وراثت کا مطالبہ شرعاً جائز ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ﴾
*”حکم کرتا ہے تم کو اللہ تمہاری اولاد کے حق میں کہ ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے”*
(النساء: 11)
اس آیت کے مطابق وراثت میں بیٹے اور بیٹی دونوں کا حق متعین ہے۔ چونکہ آپ اور آپ کی بہن نے نہ تو اپنا حصہ بھائی کو ہبہ کیا ہے، نہ معاف کیا ہے، اس لیے آپ دونوں کا مطالبہ درست ہے اور کتاب و سنت کے مطابق ہے۔
2. بھائی پر شرعاً لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حصہ واپس کرے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٞ مِّمَّا تَرَكَ ٱلۡوَٰلِدَانِ وَٱلۡأَقۡرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٞ مِّمَّا تَرَكَ ٱلۡوَٰلِدَانِ وَٱلۡأَقۡرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ أَوۡ كَثُرَۚ نَصِيبٗا مَّفۡرُوضٗا﴾
*”مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے، تھوڑا ہو یا زیادہ، مقرر حصہ ہے”*
(النساء: 7)
لہٰذا شرعاً آپ کے بھائی پر واجب ہے کہ آپ دونوں کو ان کے شرعی حصے لوٹائے۔ اس عمل سے بھائی اور والدہ دونوں گناہ سے بچ سکتے ہیں۔
3. اصلاح کی صورت میں کوئی گناہ نہیں
قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ﴾
*”پھر جو کوئی خوف کرے وصیت کرنے والے سے طرف داری کا یا گناہ کا، پھر ان میں باہم صلح کرا دے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں”*
(البقرة: 182)
وراثت کی تقسیم میں صلح تو بطریق اولیٰ مستحسن اور باعثِ ثواب عمل ہے۔
4. بہنیں اگر اپنی رضا سے حصہ معاف کریں تو گناہ سے بچاؤ ممکن ہے
اگر دونوں بہنیں بلا کسی جبر، اکراہ یا سماجی دباؤ کے اپنے بھائی کو رضا و رغبت سے اپنا حصہ معاف یا ہبہ کر دیں تو بھائی اور والدہ گناہ سے بچ سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ سبحانہ وتعالیٰ۔
5. حدیث ابن ماجہ کا مسئلہ اور اس کی شرعی حیثیت
حدیث:
«إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ : مَا کَانَ مِنْ مِيْرَاثٍ قُسِمَ فِی الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ عَلٰی قِسْمَةِ الْجَاهِلِيَّةِ ، وَمَا کَانَ مِنْ مِيْرَاثٍ أَدْرَکَهُ الْإِسْلاَمُ فَهُوَ عَلٰی قِسْمَةِ الْاِسْلاَمِ»
(مشکوة، باب الفرائض، الفصل الثالث)
اس حدیث کا استناد کمزور ہے کیونکہ اس کی سند میں ابن لہیعہ نامی راوی ہے جو ضعیف ہے، جیسا کہ جامع ترمذی میں مذکور ہے۔ اگرچہ بعض شواہد کی بنیاد پر اسے حسن لغیرہ مان بھی لیا جائے، تب بھی صورتِ مسئولہ میں یہ حدیث لاگو نہیں ہوتی، کیونکہ:
◈ میراث اسلام کے دور میں موجود تھی، تو شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہونی چاہیے۔
◈ جاہلیت کا دور ختم ہو چکا ہے، اور سوال میں تمام ورثاء مسلمان تھے۔
لہٰذا والدہ کی طرف سے بہنوں کے حصے کو بھائی کے نام لگوانا، چاہے کسی بھی ملکی قانون کے مطابق ہو، سراسر غلط اور گناہ ہے۔
6. اصلاح کیسے کی جائے؟
✿ بہنوں کو ان کے حصے واپس کر دیے جائیں، یا
✿ بہنیں خود اپنے حصے کو بھائی کو ہبہ یا معاف کر دیں۔
دونوں صورتوں میں اصلاح ممکن ہے، اور والدہ و بھائی گناہ سے بچ سکتے ہیں۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب