سوال
دادا کی وراثت – اگر باپ فوت ہو جائے تو پوتے کو جائیداد کیوں نہیں ملتی؟ اور اگر پوتا جائیداد حاصل کرنا چاہے تو اس کا کیا طریقہ ہے؟ یاد رہے کہ دادا زندہ ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلامی شریعت میں وراثت کے احکام قرآن و حدیث کی روشنی میں متعین کیے گئے ہیں، اور ان میں ہر وارث کا حصہ واضح کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پوتے کا ذکر براہِ راست موجود نہیں، جس کی وضاحت درج ذیل ہے:
پوتے کا وراثت میں حصہ کیوں نہیں؟
◈ قرآن و حدیث کی رو سے پوتے کو دادا کی وراثت میں خود بخود حصہ نہیں ملتا، جب کہ دادا کے بیٹے (یعنی پوتے کے والد) میں سے کوئی زندہ ہو۔
◈ صحیح حدیث کی روشنی میں:
"فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ”
*”پس جو باقی رہ جائے تو وہ قریب ترین مرد کو ملے گا۔”*
(صحیح بخاری: 6732، 6735؛ صحیح مسلم: 1615)
اس حدیث کے مطابق اگر دادا کا بیٹا (یعنی پوتے کا والد) زندہ ہو تو وہ "عصبہ” (قریبی مرد رشتہ دار) بن کر باقی تمام جائیداد کا مالک بن جاتا ہے۔ اس وجہ سے پوتے کو حصہ نہیں ملتا۔
صحابہ کرام کا فہم:
◈ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے:
"ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم…”
*”پوتے بیٹوں کے قائم مقام ہوتے ہیں، بشرطیکہ کوئی بیٹا زندہ نہ ہو۔”*
(صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب میراث ابن الابن إذا لم یکن ابن، حدیث: 6735)
اس قول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بیٹا زندہ ہو تو پوتے کو بیٹے کے برابر نہیں سمجھا جائے گا، لیکن اگر بیٹا فوت ہو چکا ہو تو پھر پوتے کو اس کی جگہ پر سمجھا جاتا ہے۔
پوتے کو جائیداد حاصل کرنے کا شرعی طریقہ:
◈ چونکہ پوتا دادا کی جائیداد کا شرعی وارث اس وقت نہیں بنتا جب تک دادا کا بیٹا زندہ ہو، اس لیے اگر دادا اپنی زندگی میں چاہے تو وہ اپنی جائیداد کے ایک تہائی (1/3) حصے کی وصیت پوتے کے حق میں کر سکتا ہے۔
◈ وصیت کی شرعی حد:
اسلام میں وصیت کرنے کی حد ایک تہائی (1/3) رکھی گئی ہے، اس سے زیادہ وصیت کی اجازت نہیں۔ اس حد کے اندر دادا اپنی مرضی سے پوتے یا کسی بھی غیر وارث کے لیے وصیت کر سکتا ہے۔
جیسا کہ "شہادت نومبر 2000ء” کے شمارے میں ذکر ہے، دادا کو چاہیے کہ پوتے کے لیے مناسب وصیت کرے تاکہ وہ کچھ نہ کچھ جائیداد حاصل کر سکے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب