پندرہ شعبان کے روزے کی حقیقت اور قضاء کا شرعی حکم
ماخوذ: احکام و مسائل، روزوں کے مسائل، جلد 1، صفحہ 281

سوال

پندرہ شعبان کا روزہ رکھا جائے، اگر پندرہ شعبان کو روزہ نہ رکھے تو اس کی قضاء رمضان کے بعد دے — کیا یہ حدیث ٹھیک ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  • پندرہ شعبان کا روزہ شب برات کی نیت سے رکھنا شرعی طور پر ثابت نہیں ہے۔
  • اس سلسلے میں ابن ماجہ میں ایک روایت مرفوعاً منقول ہے، لیکن وہ روایت ضعیف ہے اور اس پر عمل کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتی، کیونکہ وہ قابلِ احتجاج نہیں۔
  • تاہم صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کے مہینے میں روزے رکھتے تھے۔
  • اس کے علاوہ احادیث میں یہ بھی وارد ہے کہ:
    • ایامِ بیض یعنی ہر ماہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھنے کی واضح ترغیب موجود ہے۔

اس بنا پر:

  • پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا بالکل درست ہے، بشرطیکہ نیت نفل عبادت کی ہو، نہ کہ شبِ برات کی مخصوص فضیلت کے ساتھ۔
  • یہ روزہ نفل روزے کے طور پر رکھا جائے گا۔
  • نفل روزے کی اگر قضاء کرنا ہو:
    • تو وہ بھی نفل ہی ہوگی۔
    • اور اس کی قضاء رمضان سے پہلے یا بعد دونوں وقت درست ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1