پاکستان میں سول معاشرہ اور مذہبی فکر کا تاریخی تناظر

پاکستان میں آج کل "سول معاشرہ”، "روشن خیالی”، اور "وسیع نقطہ نظر” جیسے موضوعات

پاکستان میں آج کل "سول معاشرہ”، "روشن خیالی”، اور "وسیع نقطہ نظر” جیسے موضوعات اکثر زیرِ بحث رہتے ہیں۔ یہ مباحث دراصل بیسویں صدی کے اواخر سے شروع ہونے والی ایک فکری تحریک کا تسلسل ہیں۔ ریاستی اور فکری سطح پر یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کو مذہبی طرزِ زندگی سے ہٹا کر مادہ پرستانہ ترقی کی طرف لے جایا جائے۔ اس میں نہ صرف اربابِ اقتدار بلکہ مختلف دانشور اور مفکرین بھی شامل ہیں۔

تاریخی پس منظر

تاریخ میں قوموں اور تہذیبوں کی فکری اور معاشرتی تبدیلیاں فوری طور پر نہیں بلکہ صدیوں میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں عیسائیت کی مثال سب سے واضح نظر آتی ہے۔ عیسائیت، جو کبھی مکمل طرزِ زندگی تھی، آج محض رسومات اور چند عقائد تک محدود ہو چکی ہے۔ معاشرتی اور معاشی اقدار میں شرم و حیا، تقویٰ، ایثار اور آخرت پسندی جیسے عناصر رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو گئے اور دنیاوی ترقی و مادیت غالب آ گئی۔

عیسائیت اور جدیدیت کا تصادم

عیسائیت کے زوال کی بنیادی وجوہات میں اصلاحی تحریکوں (Reformation) اور فلسفیانہ سوچ نے اہم کردار ادا کیا۔

تحریک اصلاح (Reformation):

  • اس تحریک کا آغاز کلیسا کی خرابیوں کی اصلاح کے نام پر ہوا، جس نے عام لوگوں کو مذہبی اجارہ داری سے آزاد کیا۔
  • لوتھر اور کیلون جیسے مفکرین نے یہ تصور دیا کہ ہر شخص بائبل کی تشریح خود کر سکتا ہے، جس سے مذہب کی اجتماعی تشریح ختم ہو گئی۔

عقلیت پسندی کا فروغ:

  • ڈیکارٹ اور بعد کے فلسفیوں نے انسانی عقل کو مذہب پر فوقیت دی۔ نتیجتاً عقل کو وحی کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا، جس نے مذہب کی بنیادوں کو کمزور کر دیا۔

جاگیردارانہ نظام اور مذہبی معاشرے

قرونِ وسطیٰ کے مذہبی معاشروں میں جاگیردارانہ نظام ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ یہ نظام آج کے ظالمانہ جاگیردارانہ نظام سے مختلف تھا۔

خصوصیات:

  • زمین کو منافع کے بجائے سماجی و سیاسی ذمہ داری کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
  • جاگیرداروں کی عزت دولت کے بجائے سخاوت، عدل، اور رعایا کے ساتھ حسنِ سلوک پر مبنی تھی۔
  • عیسائی خانقاہوں اور چرچوں کا نظام زہد، قناعت اور آخرت پسندی کو فروغ دیتا تھا۔

سیاسی اور علمیاتی تبدیلیاں

عیسائیت میں فقہ اور قانون کی کمی کے باعث، سیاسی نظام پر مذہبی گرفت مضبوط نہ رہی۔ چرچ اور بادشاہت کے درمیان طاقت کی تقسیم نے سیکولرازم کی بنیاد رکھی۔

St. Augustine کا تصور:

  • اس نے مذہبی اور دنیاوی قیادت کے درمیان تقسیم کو واضح کیا، لیکن مذہب ہر شعبے میں بالواسطہ اثر رکھتا تھا۔

بادشاہت اور اصلاحی تحریک:

  • اصلاحی مفکرین کی تحریریں بادشاہت کی اطاعت پر زور دیتی تھیں، جس سے قوم پرستی اور قومی ریاستوں کا آغاز ہوا۔

معاشرتی اور معاشی تبدیلیاں

زہد و قناعت کا خاتمہ:

  • جیسے جیسے معاشرتی اقدار میں تبدیلی آئی، زہد، قناعت اور فقر کی جگہ حرص و حسد اور دنیاوی ترقی نے لے لی۔
  • زمین اب سماجی عزت کے بجائے منافع کا ذریعہ بن گئی۔

Enclosure Movement:

  • کسانوں سے زمینیں چھین کر انہیں مزدور بنا دیا گیا، جس سے سرمایہ دارانہ معیشت کی بنیاد رکھی گئی۔

دستوری جمہوری ریاست اور سرمایہ داری

دستوری ریاست، جو انسانی حقوق اور عوامی حاکمیت کی دعوے دار ہے، دراصل مذہب سے آزاد نظامِ حکومت کی علامت ہے۔

امریکی دستور:

  • امریکی دستور کتابِ فطرت کے اصولوں پر مبنی تھا، جس میں عوام کی مرضی اور خواہشات کو مرکزی حیثیت دی گئی۔
  • اس دستور نے وحی الٰہی کو رد کر کے انسانی عقل اور خواہش کو اصل معیار بنا دیا۔

جمہوری ریاست:

  • جمہوری ریاست کا مقصد عوامی فلاح نہیں بلکہ سرمایہ کی گردش اور منافع کی بڑھوتری ہے۔
  • جمہوریت کے ذریعے اقلیت کو طاقت فراہم کی گئی، جو سرمایہ دارانہ مقاصد کو پورا کر سکے۔

نتائج

سول معاشرہ اور مذہبی معاشرہ:

  • سول معاشرہ مذہبی معاشرے کی ضد ہے، اور اس کا قیام بتدریج ہوتا ہے۔
  • مذہبی اجماع اور الٰہی احکامات کو رد کرکے ہی سول معاشرہ قائم کیا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں:

  • حرص و حسد اور منافع خوری کو فروغ دیا جاتا ہے۔
  • مذہبی تعلیمات اور ادارے رفتہ رفتہ بے اثر کر دیے جاتے ہیں۔

نتیجہ

یہ ساری بحث ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ جب کسی معاشرے میں مذہب کی بنیادیں کمزور ہو جائیں اور عقل و خواہشات کو معیار بنا لیا جائے، تو وہاں مذہبی معاشرہ ختم ہو کر سول معاشرہ جنم لیتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1