پاکستان میں جنس اور مغربی اقدار کا موازنہ

لبرل نظریہ اور پاکستانی معاشرتی حساسیت

ایک لبرل دوست کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں جنس ایک غیر معمولی حساسیت کا حامل موضوع ہے۔ ان کے بقول اگر یہاں کوئی عورت ماڈرن لباس پہن لے تو فوراً معاشرے کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے، جبکہ مغربی ممالک میں نیم برہنہ لباس میں خواتین عام گھومتی ہیں، اور کسی کو پروا بھی نہیں ہوتی۔

لبرل طبقے کا "ٹیسٹ کیس”

یہ دوست اسے ایک "ٹیسٹ کیس” قرار دیتے ہیں کہ پاکستان اس دن ترقی یافتہ ہوگا جب یہاں خواتین بغیر کسی خوف کے نیم برہنہ لباس میں گھوم سکیں گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سوچ کے کئی مضمرات ہیں، جن پر مغربی معاشرے کے اندر بھی بحث ہوتی ہے۔

موازنہ: سطحی سوچ یا منصوبہ بندی؟

لبرل طبقے کی اس سوچ کو سطحی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ مختلف معاشرتی پس منظر اور مشترک بنیادوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اگر دو مختلف تعلیمی نظام سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کا ایک ہی امتحان میں موازنہ کیا جائے تو یہ انصاف نہیں ہوگا۔ اسی طرح دو مختلف معاشروں کا بغیر کسی مشترکہ بنیاد کے موازنہ سطحی ہوگا۔

مثال کے طور پر:

◈ انگریزی بولنے کے معیار کا موازنہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان کرنا غیر منطقی ہے۔

◈ مذہبی یا معاشرتی اقدار کا فرق: فرانس اور افریقی ممالک میں رنگت کے موازنے جیسا بے بنیاد عمل ہوگا۔

◈ خوراک کے فرق کو جواز بنانا کہ پاکستان میں سور کا گوشت کیوں نہیں ملتا، بے وقوفی ہوگی۔

ہر معاشرے کا ایک مخصوص ڈھانچہ اور بنیادی اقدار ہوتی ہیں، جنہیں نظر انداز کرکے کوئی فیصلہ کرنا ناانصافی ہوگی۔

برطانوی اور پاکستانی معاشرتی فرق

برطانوی معاشرہ:

شخصی آزادی اور لبرل تصورات پر قائم ہے، جنہیں وہ پچھلے دو صدیوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔ بچپن سے ان کے بچے ان تصورات کو سیکھتے اور عملی طور پر دیکھتے ہیں، اس لیے ان کے لیے نیم برہنہ لباس کوئی غیر معمولی چیز نہیں۔

پاکستانی معاشرہ:

اسلامی عقائد پر مبنی ہے، جہاں شرم و حیا اور ستر پوشی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ بچپن سے ان تصورات کو گھریلو تربیت کا حصہ بنایا جاتا ہے، اس لیے نیم برہنہ لباس ان کے لیے حساس موضوع بن جاتا ہے۔

نظام اور قوانین سے تصادم

مسلم معاشروں میں عقیدے اور تربیت سے بننے والی سوچ کا جب مغربی لبرل قوانین سے سامنا ہوتا ہے تو یہ انتشار کا سبب بنتا ہے۔ گزشتہ دو صدیوں سے مغربی سیکولر قوانین اور تصورات کو مسلم معاشروں میں نافذ کیا جا رہا ہے، لیکن اکثریتی عوام انہیں ناپسند کرتی ہے۔

رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ:

امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ سول ڈیموکریٹک اسلام میں مسلم معاشروں کو لبرل بنانے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس میں لبرل طبقے کو وسائل اور سپورٹ فراہم کرنے کی تجاویز شامل ہیں تاکہ وہ معاشرے میں تبدیلی لا سکیں۔

انتشار کا نتیجہ

اس منصوبہ بندی کے نتیجے میں معاشرے میں دو مختلف نظریات پیدا ہو چکے ہیں:

❀ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو قندیل بلوچ جیسی خواتین کی حمایت کرتے ہیں۔

❀ دوسری طرف اکثریتی طبقہ ہے جو ان نظریات کو سخت ناپسند کرتا ہے۔

اس اختلافِ رائے کے نتیجے میں معاشرتی تضادات اور عدم برداشت کا ماحول پیدا ہو چکا ہے، جہاں ہر واقعے کو دو مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔

انتشار سے نکلنے کا حل

معاشرتی انتشار سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ معاشرہ کسی ایک عقیدے پر متفق ہو جائے۔ جب ایک ہی عقیدہ لوگوں کی عملی اور نظری زندگی کا حصہ بنے گا، تو وہ کسی بھی واقعے کو ایک ہی نقطہ نظر سے دیکھیں گے اور اس پر متفق ہو سکیں گے۔

اسلامی عقیدے کی بنیاد پر معاشرتی یکجہتی

مسلم معاشرے کے لیے سیکولر عقیدہ اپنانا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ مسلمان اپنے عقیدے سے جذباتی اور فکری طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے مسلم معاشروں کو انتشار سے بچانے کا واحد حل یہ ہے کہ اسلامی عقیدہ ان کی قانونی اور فکری بنیاد ہو۔ تب ہی مسلم معاشرے مادی اور روحانی ترقی کی منازل طے کر سکیں گے، ورنہ یہ انتشار جاری رہے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے