سوال
پانسوں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنے کا شریعت کی نظر میں کیا حکم ہے اور ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ عزوجل اور رسول کریم ﷺ کا کیا فرمان ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل نے پانسوں کے بارے میں سوال کیا ہے۔
پانسے دراصل وہ تیر تھے جنہیں اہل عرب زمانۂ جاہلیت میں قسمت معلوم کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ایک تیر پر یہ عبارت لکھی جاتی: "میرے رب نے مجھے حکم دیا”، دوسرے پر لکھی جاتی: "میرے رب نے مجھے منع کیا ہے”، جبکہ ایک تیر بالکل سادہ ہوتا جس پر کچھ بھی نہیں لکھا جاتا۔
جب وہ سفر، شادی یا کسی بڑے کام کا ارادہ کرتے تو بتوں کے پاس جا کر پانسوں کے ذریعے قسمت معلوم کرتے۔
◄ اگر "حکم دینے والا تیر” نکل آتا تو وہ اس کام کے لیے قدم بڑھاتے۔
◄ اگر "منع کرنے والا تیر” نکلتا تو وہ رک جاتے۔
◄ اگر "سادہ تیر” نکلتا تو وہ دوبارہ قرعہ اندازی کرتے یہاں تک کہ "حکم یا ممانعت والا تیر” نکل آتا۔
آج کی سوسائٹی میں اس جیسی چیزیں
ہمارے معاشرے میں اس کے مشابہ اعمال یہ ہیں:
◈ رمل (زمین پر لکیریں کھینچ کر قسمت معلوم کرنا)
◈ کوڑیاں پھینکنا
◈ کتاب کھول کر فال نکالنا
◈ تاش کے پتے استعمال کرنا
◈ فنجان (کافی کے پیالے) پڑھنا
یہ تمام طریقے اسلام میں حرام اور منکر ہیں۔
قرآن مجید سے دلیل
﴿وَأَن تَستَقسِموا بِالأَزلـٰمِ ۚ ذٰلِكُم فِسقٌ﴾
"اور یہ کہ تم پانسوں کے ذریعہ قسمت معلوم کرو، یہ فسق ہے۔”
حدیثِ مبارکہ سے دلیل
حضرت نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لا ينال الدرجات اعلى من تكهن او استقسم او رجع من سفر تطيرا (النسائى)
"وہ شخص بلند درجات کو نہیں پہنچ سکتا جو کہانت کرے یا پانسوں کے ذریعے قسمت معلوم کرے یا بدشگونی کی وجہ سے سفر سے واپس لوٹ آئے۔”
نتیجہ
لہٰذا اس طرح کے شرکیہ عقائد اور افعال سے باز رہنا ضروری ہے، ورنہ جہنم کی وعید اپنی جگہ قائم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب