ٹی وی اور تصویر بنانے کی شرعی حیثیت — قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01، صفحہ 514

سوال

کیا ٹیلی ویژن دیکھنا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں تو اس کی وجوہات بیان کریں۔
اسی طرح، کیا تصویر بنوانا یا بنانا جائز ہے — چاہے یہ شوق سے ہو یا مجبوری سے؟ اگر ناجائز ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس زمانے میں لوگ مورتیاں اور بت بنا کر پوجا کرتے تھے، جبکہ ہم کلمہ گو ہیں اور تصویروں کی پوجا نہیں کرتے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تصویر بنانا اور بنوانا ناجائز ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

’’تصویروں والوں کو قیامت کے روز عذاب ہو گا۔‘‘

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک ایسا کپڑا تھا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف نہیں لائے۔ جب آپ ﷺ نے صلیب یا تصاویر دیکھیں تو آپ ﷺ نے انہیں توڑ ڈالا۔

قدیم زمانے میں مورتیاں بنائی جاتی تھیں، اور کپڑوں اور دیواروں پر بھی تصویریں بنائی جاتی تھیں — دونوں ہی صورتیں ناجائز ہیں۔

ترمذی وغیرہ میں اس کی اصلاح کا طریقہ بھی آیا ہے، یعنی تصویر کا سر اور چہرہ کاٹ کر ختم کر دیا جائے۔ لفظ "تصویر” کا اطلاق عکس اور بت دونوں پر ہوتا ہے۔

ٹیلی ویژن میں بھی تصویر شامل ہے، اس لیے یہ بھی ناجائز ہے۔
ہاں، اگر تصویر غیر ذی روح چیز کی ہو — مثلاً مسجد یا درخت — تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث میں مذکور ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے