آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت
آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ جدید زندگی میں ٹیکنالوجی اس قدر شامل ہو چکی ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور کرنا مشکل ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد، سائنسی نظریات اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں کو گہرائی سے سمجھے بغیر، یا تو اس سے مرعوب ہو جاتی ہے یا کوئی واضح اسلامی موقف نہیں رکھ پاتی۔ اس مضمون میں تین اہم پہلوؤں کو زیرِ بحث لایا جائے گا:
- سائنس اور ٹیکنالوجی کے تاریخی فرق کو واضح کرنا
- ٹیکنالوجی اور اقدار کے باہمی تعلق کو سمجھنا
- جدید دور کی ٹیکنالوجی، یعنی ٹیکنو سائنس، کی بنیاد اور اس کے اثرات کا جائزہ لینا
ان پہلوؤں کے واضح ہونے کے بعد مسلمانوں کے لیے موجودہ دور میں ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے چیلنجز اور خطرات کو بہتر طور پر سمجھنا آسان ہوگا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کا تاریخی فرق
جدید سائنس کی ابتدا مغرب کے جدیدیت پسند سائنسدانوں سے ہوئی۔ اسے وحی کے متبادل علم کی حیثیت دی گئی، اور اس کا بنیادی انحصار سائنٹفک میتھڈ پر ہے۔ یہ طرزِ فکر تاریخ میں پہلے کبھی موجود نہیں تھا، اگرچہ اس کے کچھ عناصر قدیم یونانی فلسفے میں ملتے ہیں۔
دوسری طرف، لفظ "ٹیکنالوجی” کا تعلق "ٹیکنیک” یعنی تدبیر سے ہے۔ انسان نے ہمیشہ اپنی روزمرہ زندگی کے مسائل کے حل کے لیے مختلف تدابیر اپنائی ہیں۔ ہر تہذیب نے اپنے ماحول کے مطابق آلات، ہتھیار، گھر اور دیگر ضروری اشیاء بنائیں۔ ان تدابیر کو اگر مؤثر اور آسان پایا گیا تو وہ مقبول ہو گئیں، ورنہ وقت کے ساتھ ناپید ہوگئیں۔
قدیم تہذیبوں کی مثالیں:
- مصری تہذیب: اہرام مصر بنانا اور مردہ جسم کو حنوط کرنا ان کی ٹیکنالوجی تھی، لیکن یہ سائنس نہیں تھی۔
- موئن جو دڑو اور ہڑپہ: ان شہروں میں نکاسی آب کا بہترین نظام تھا، لیکن جدید سائنسی سوچ کا فقدان تھا۔
یونانی ٹیکنالوجی:
قدیم یونان میں ٹیکنالوجی کا تعلق "آرٹ” سے تھا، کیونکہ حسن پرستی ان کی بنیادی قدر تھی۔ اس کا سائنس سے براہِ راست تعلق نہیں تھا۔
رومی تدابیر:
رومیوں نے جنگی حکمتِ عملی اور عوامی سہولت کے لیے اہم اقدامات کیے، جیسے سڑکوں کی تعمیر، پانی کی فراہمی اور دیگر بنیادی ضروریات کا انتظام۔
نتیجہ:
تاریخی طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی لازم و ملزوم نہیں رہیں۔ ٹیکنالوجی ہمیشہ معاشرتی اقدار کے تابع رہی ہے، اور ہر معاشرے کی ایمانیات اور بنیادیں اس کی تدابیر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
موجودہ دور کی ٹیکنالوجی: ٹیکنو سائنس (Technoscience)
آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں فرق کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ جدید دور کی مصنوعات اور خدمات سائنس اور ٹیکنالوجی کے امتزاج سے وجود میں آتی ہیں۔ مغربی مفکرین، جیسے برونو لاٹور، نے اسے "ٹیکنو سائنس” کا نام دیا ہے۔
ٹیکنو سائنس کی خصوصیات:
- یہ محض ایک سادہ تدبیر نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت سرمائے کی بڑھوتری کے لیے جدید سائنسی طرزِ فکر کا نتیجہ ہے۔
- جدید ٹیکنالوجی انسان کی بنیادی ضروریات کے بجائے اس کی خواہشات کی تکمیل پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔
مثال کے طور پر:
- گاڑی کا بنیادی مقصد سواری فراہم کرنا ہے، لیکن اس کے نت نئے ماڈل اور ڈیزائن محض صارفین کو مرعوب کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
- اسی طرح موبائل فون کا اصل مقصد رابطے میں سہولت فراہم کرنا ہے، لیکن ہر چند ماہ بعد نئے ماڈلز مارکیٹ میں آ جاتے ہیں، جن کا مقصد صرف منافع بڑھانا ہے۔
سرمایہ داری اور ٹیکنو سائنس کا گٹھ جوڑ
جدید ٹیکنالوجی کی ترقی بڑی حد تک سرمایہ دارانہ نظام پر منحصر ہے۔ اہم ادارے، جیسے NASA اور محکمہ دفاع، یا تو جنگی ضروریات کے تحت تحقیق کرتے ہیں یا تجارتی مقاصد کے لیے سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ نتیجتاً، جدید سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی سرمائے کی افزائش کے لیے مخصوص ہو چکی ہے۔
نظریہ اور عمل کا تعلق
جدید معاشرے میں نظریہ اور عمل کی بحث بہت اہم ہے۔ دو بنیادی نظریات پائے جاتے ہیں:
- نظریہ مقدم ہے: کچھ مفکرین کا ماننا ہے کہ نظریات اور عقائد سے عملی طریقے وجود میں آتے ہیں۔
- عمل مقدم ہے: تاریخی مادیت کے حامی کہتے ہیں کہ معاشرتی عمل لوگوں کے نظریات اور عقائد کو تشکیل دیتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں نظریہ کو عملی زندگی میں شامل کرنے کے لیے دین کا علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن آج کا مسلمان زیادہ تر دنیاوی علم حاصل کرنے میں مصروف ہے، جبکہ دینی علم محض ناظرہ قرآن اور چند دعاؤں تک محدود ہو چکا ہے۔ اس کمزور علمی بنیاد کی وجہ سے مسلمان، ٹیکنو سائنس کی "سرمائے کی بڑھوتری” جیسی بنیادی قدر سے متاثر ہو کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
دفاع کا راستہ: دین اور معرفتِ الٰہی
موجودہ دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے مسلمانوں کو دین کے علم اور معرفتِ الٰہی سے مسلح ہونا ضروری ہے۔ بصورت دیگر، وہ ٹیکنو سائنس اور سرمایہ داری کے غلام بن کر اپنی اصل شناخت کھو بیٹھیں گے۔