سوال:
ٹیکس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
جواب:
بغیر شرعی وجہ کے کسی سے مال وصول کرنا ٹیکس کہلاتا ہے۔ یہ ظلم اور ناحق مال کھانا ہے۔ یہ بالا اجماع حرام ہے۔ ٹیکس جس بھی صورت میں ہو، ناجائز ہے۔
﴿وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ﴾
(الأعراف: 85)
لوگوں کی اشیا میں کمی مت کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ۔
﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾
( البقرة: 188)
دوسروں کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفسي بيده لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له.
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ توبہ کوئی ٹیکس خور بھی کرتا تو اسے معاف کر دیا جاتا۔
(صحيح مسلم: 1695)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ٹیکس خوری بہت بڑی ہلاکت اور ظلم ہے۔
❀ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (456ھ) فرماتے ہیں:
اتفقوا أن المراصد الموضوعة للمغارم على الطرق وعند أبواب المدن وما يؤخذ فى الأسواق من المكوس على السلع المجلوبة من المارة والتجار ظلم عظيم وحرام وفسق.
فقہا کا اتفاق ہے کہ ٹیکس کی وصولی کے لیے جو چنگیاں راستوں اور شہروں کے دروازوں پر بنائی جاتی ہیں اور بازاروں اور مارکیٹوں میں جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، وہ بہت بڑا ظلم، حرام اور فسق ہے۔
(مراتب الإجماع: 121)
خریداروں یا بیوپاریوں سے جو ٹیکس یا چنگی وغیرہ وصول کی جاتی ہے، عوام اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ سلطان کا حق ہے، یہ کہنا نہایت نامناسب اور ممنوع ہے، اس طرح کے جملے استعمال کرنے سے بہر صورت اجتناب چاہیے، یہ شدید منکر اور بدترین بدعت ہے، الغرض اسے ٹیکس، چنگی، ضریبہ وغیرہ کے نام سے موسوم کیا جائے۔