ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی سزا: تفصیلی شرعی وضاحت
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی سزا

سوال:

اگر کوئی شخص تکبر کے ساتھ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے تو اس کی سزا کیا ہے؟ اور اگر اس کا مقصد تکبر نہ ہو تو پھر کیا حکم ہے؟ نیز جو لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں تو ان کے لیے کیا جواب ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تکبر کے ساتھ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی سزا:

جو شخص تکبر کے جذبے کے تحت اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، اس کے بارے میں سخت وعید آئی ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ثَـلَاثَةٌ لَا يُکَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَکِّيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَه بِالْحَلْفِ الْکَاذِبِ»
(صحيح مسلم، کتاب الايمان، باب بيان غلظ تحريم اسبال الازار… ح:۱۰۶)

یعنی تین اشخاص ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا:

◈ کپڑا نیچے لٹکانے والا
◈ احسان جتلانے والا
◈ جھوٹی قسم کے ساتھ سودا بیچنے والا

تکبر کے بغیر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی سزا:

اگر کوئی شخص تکبر کے بغیر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے تو بھی وعید آئی ہے، اگرچہ اس کی نوعیت مختلف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِی النَّارِ»
(صحيح البخاري، اللباس، باب ما اسفل من الکعبين فهو فی النار، ح: ۵۷۸۷)

یعنی تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا، وہ جہنم میں ہو گا۔

یہ سزا تکبر کے بغیر لٹکانے پر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تکبر کی قید نہیں لگائی۔ اس لیے اس حکم کو تکبر کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث:

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے:

«إِزَارَةُ الْمُؤمنِ إِلَی نِصْفِ السَّاقِ وَلَا حَرَجَ ـأَوقال:ْ لَا جُنَاح عليهَ ـ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْکَعْبَيْن وِ مَا کَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذلکِ فَهُوَ فِی النَّارِ وِ مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا لَمْ يَنْظُرِ اللّٰهُ إِلَيْه يوم القيامهِ»
(سنن ابی داؤد، اللباس، باب فی قدر موضع الازار ح: ۴۰۹۳، سنن ابن ماجہ، اللباس، باب موضع الازار اين هو، ح: ۳۵۷۳، مسند احمد: ۳/ ۵)

مطلب یہ ہے کہ:

◈ مسلمان کا تہبند آدھی پنڈلی تک ہونا چاہیے
◈ آدھی پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان جو ہو، اس میں کوئی حرج نہیں
◈ جو ٹخنوں سے نیچے ہو، وہ جہنم میں ہو گا
◈ اور جو شخص تکبر کے ساتھ کپڑا گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں

دو مختلف اعمال، دو مختلف سزائیں:

یہ بات واضح ہے کہ:

◈ تکبر کے ساتھ کپڑا لٹکانا الگ عمل ہے
◈ بغیر تکبر کے کپڑا لٹکانا دوسرا عمل ہے

لہٰذا دونوں کی سزائیں بھی مختلف ہیں۔ جب حکم اور سبب الگ ہوں تو کسی ایک کو دوسرے پر قیاس کر کے قید لگانا جائز نہیں ہوتا، ورنہ تناقض لازم آتا ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حدیث کا جواب:

اگر کوئی شخص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو دلیل بنائے تو اسے درج ذیل وضاحت کی جائے:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«إِنَّ أَحَدَ شِقَّیْ ثَوْبِی يَسْتَرْخِی إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِکَ مِنْهُ»
(صحيح البخاري، اللباس، باب من جر ازاره من غير خيلاء، ح:۵۷۸۴)

یعنی میرے تہبند کا ایک حصہ خود بخود نیچے آ جاتا ہے، لیکن میں اسے بار بار اوپر کر لیتا ہوں۔

اس سے درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں:
➊ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کپڑا خود بخود نیچے آتا تھا، وہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے تھے۔
➋ وہ اس کی اصلاح کرتے اور اسے اوپر رکھتے رہتے تھے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے بارے میں تزکیہ فرمایا تھا کہ وہ یہ عمل تکبر کی وجہ سے نہیں کرتے۔

آج کے لوگوں پر اس کا اطلاق:

جو لوگ جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم تکبر سے نہیں کرتے، تو ان سے کہا جائے گا:

◈ اگر تم تکبر کے بغیر لٹکاتے ہو تو ٹخنوں سے نیچے والا حصہ جہنم میں ہو گا۔
◈ اور اگر تکبر کے ساتھ کرتے ہو تو:

➊ اللہ تم سے کلام نہیں کرے گا
➋ تمہاری طرف نظر نہیں کرے گا
➌ تمہیں پاک نہیں کرے گا
➍ اور تمہارے لیے دردناک عذاب ہو گا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا تزکیہ:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ وہ تکبر سے ایسا نہیں کرتے، کیا آج کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہو؟

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شیطان لوگوں کو کتاب و سنت کے متشابہ دلائل کے پیچھے لگا کر ان کے گناہوں کے لیے جواز نکال دیتا ہے۔ مگر اللہ جسے چاہے ہدایت دے دیتا ہے۔

ہم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور عافیت کی دعا کرتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے