وہ 4 مقامات جہاں درود پڑھنا نبیﷺ سے ثابت نہیں
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب ذکر مصطفےٰﷺ سے ماخوذ ہے۔

① اذان سے پہلے درود

اذان سے پہلے الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وغیرہ پڑھنا ثابت نہیں۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام رحمہم اللہ، نتبع تابعین اعلام رحمہم اللہ اور ائمہ اسلام رحمہم اللہ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔
جناب غلام رسول سعیدی صاحب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اذان سے پہلے درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔
(شرح صحیح مسلم جلد 1، ص 1092)
❀ علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ (م: 974ھ) لکھتے ہیں:
لم نر فى شيء منها التعرض للصلاة عليه قبل الأذان، ولا إلى محمد رسول الله بعده، ولم نر أيضا فى كلام أئمتنا تعرضا لذلك أيضا، فحينئذ كل واحد من هذين ليس بسنة فى محله المذكور فيه، فمن أتى بواحد منهما فى ذلك معتقدا سنيته فى ذلك المحل المخصوص؛ ينهى عنه ومنع منه، لأنه تشريع بغير دليل، ومن شرع بلا دليل؛ يرد عليه وينهى عنه
ہم نے کسی بھی حدیث میں اذان سے پہلے اور دوران اذان محمد رسول اللہ کے بعد درود پڑھنے کی دلیل نہیں دیکھی۔ ائمہ کے کلام میں ایسی کوئی بات نہیں ملی۔ لہذا ان مقامات پر درود پڑھنا مسنون نہیں۔ جو ان مقامات پر درود کو مسنون سمجھ کر عمل کرتا ہے، اسے روکا جائے، ایسا کرنا شریعت سازی ہے۔ جو شریعت بناتا ہے، اسے ڈانٹا اور روکا جائے گا۔
(الفتاوى الفقهية الكبرى: 1/131)
❀ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (م: 737ھ) لکھتے ہیں:
الصلاة والتسليم على النبى صلى الله عليه وسلم أحدثوها فى أربعة مواضع؛ لم تكن تفعل فيها فى عهد من مضى، والخير كله فى الاتباع لهم رضي الله عنهم، والصلاة والتسليم على النبى صلى الله عليه وسلم؛ لا يشك مسلم أنها من أكبر العبادات وأجلها، وإن كان ذكر الله تعالى والصلاة والسلام على النبى صلى الله عليه وسلم حسنا، سرا وعلنا، لكن ليس لنا أن نضع العبادات إلا فى مواضعها التى وضعها الشارع فيها، ومضى عليها سلف الأمة
جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ دین رحمہم اللہ درود نہیں پڑھتے تھے، انہوں نے ایسے چار مقامات پر درود پڑھنے کی بدعت جاری کی ہے۔ تمام بھلائی اسلاف امت کی پیروی میں ہے۔ کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بہت عظیم اور جلیل القدر عبادت ہے، ذکر الہی اور درود و سلام سری اور علانیہ دونوں طرح سے نیکی ہے، لیکن ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ عبادات کو ایسے مقامات سے منسوب کر دیں، جن میں شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رکھا اور جن میں اسلاف امت انہیں بجا لاتے تھے۔
(المدخل: 2/249-250)
یاد رہے کہ بدعت رنگ بدلتی ہے۔ زمان و مکان کے ساتھ اس میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ سنت کا امتیاز ہے کہ اس کا رنگ ہر جگہ ایک ہوتا ہے، کیوں کہ سنت نام ہے پیروی کا اور بدعت خانہ ساز ہوتی ہے، اس لیے لوگ اپنے علاقے اور دور کے اعتبار سے اس میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔ اذان سے پہلے درود بھی اپنے آغاز سے لے کر اب تک مختلف سانچوں میں ڈھلتا رہا ہے۔
❀ علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ (974ھ) لکھتے ہیں:
قد أحدث المؤذنون الصلاة والسلام على رسول الله عقب الأذان للفرائض الخمس؛ إلا الصبح والجمعة، فإنهم يقدمون ذلك فيهما على الأذان وإلا المغرب، فإنهم لا يفعلونه غالبا لضيق وقتها، وكان ابتداء حدوث ذلك فى أيام السلطان الناصر صلاح الدين بن أيوب وبأمره فى مصر وأعمالها، وسبب ذلك أن الحاكم المخذول لما قتل؛ أمرت أخته المؤذنين أن يقولوا فى حق ولده السلام على الإمام الطاهر، ثم استمر السلام على الخلفاء بعده إلى أن أبطله صلاح الدين المذكور، وجعل بدله الصلاة والسلام على النبى صلى الله عليه وسلم، فنعم ما فعل، فجزاه الله خيرا، ولقد استفتي مشايخنا وغيرهم فى الصلاة والسلام عليه صلى الله عليه وسلم بعد الأذان على الكيفية التى يفعلها المؤذنون، فأفتوا بأن الأصل سنة والكيفية بدعة، وهو ظاهر
مؤذنوں نے اذان کے بعد درود و سلام کی بدعت رائج کر لی ہے، یہ لوگ فجر اور جمعہ کی اذان سے پہلے درود و سلام پڑھتے ہیں اور مغرب میں پڑھتے ہی نہیں، کیوں کہ وقت قلیل ہوتا ہے۔ اس بدعت کی ابتدا سلطان ناصر صلاح الدین بن ایوب کے دور میں ہوئی اور اسی کے حکم سے مصر اور اس کی عملداری والے علاقوں میں اس کا اجرا ہوا۔ یہ بدعت اس طرح شروع ہوئی کہ جب حاکم مخذول قتل ہوا، تو اس کی بہن نے مؤذنوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے بیٹے کے حق میں امام طاہر پر سلام کہیں۔ بعد والے خلفا پر بھی سلام کہا جاتا رہا، پھر صلاح الدین نے اسے ختم کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام شروع کرا دیا۔ اس نے بہت اچھا کیا۔ اللہ اسے جزائے خیر دے۔ ہمارے مشایخ اور دیگر اہل علم سے پوچھا گیا کہ ان مؤذنوں کی طرح اذان کے بعد درود و سلام کیسا ہے؟ تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ درود و سلام فی نفسہ تو سنت ہے، لیکن یہ طریقہ بدعت ہے۔ جو کہ بالکل واضح ہے۔
(الفتاوى الفقهية الكبرى: 1/131)
اذان کے بعد درود و سلام مسنون ہے، لیکن اس کا وہ طریقہ بدعت ہو گا، جو اسلاف امت سے ثابت نہیں۔ ابتدا میں صرف جمعہ اور فجر میں اذان سے پہلے درود پڑھا جاتا تھا، پھر ہر اذان سے پہلے پڑھا جانے لگا۔ آغاز میں حکمرانوں پر سلام پڑھا جاتا تھا، پھر ایک حاکم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام شروع کر وا دیا۔ اس حاکم کی نیت اچھی تھی کہ وہ ایک بدعت کو ختم کرنا چاہتا تھا، لیکن اس دور کے اہل علم کی دور اندیشی دیکھیں کہ انہوں نے اس وقت ہی اس کی کیفیت کو بدعت قرار دیا۔ آج دیکھ لیجیے کہ اس بدعت میں کس قدر اضافہ ہو گیا ہے؟
دین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات و ارشادات کا نام ہے، اعمال کی قبولیت کے لیے بنیادی شرط قرآن و سنت کی پیروی ہے۔ درود و سلام کے لیے وہی طریق اپنانا ضروری ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ اسے بدعت بنا دے گا:
نافع بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
عطس رجل إلى جنب ابن عمر، فقال: الحمد لله والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابن عمر: وأنا أقول: الحمد لله والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكن ليس هكذا أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نقول: إذا عطسنا أمرنا أن نقول: الحمد لله على كل حال
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں ایک شخص نے چھینک لی اور کہا: الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اللہ کی تعریف کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجتا ہوں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یوں نہیں سکھایا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک کے وقت یہ دعا سکھائی ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ ہر حال میں ساری کی ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔
(سنن الترمذي: 2738؛ مسند الحارث (بغية الباحث: 807)؛ المستدرك للحاكم: 4/265-266؛ شعب الإيمان للبيهقي: 8884، وسنده حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
اس کے راوی حضرمی بن عجلان مولیٰ جارود کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: 6/249) نے ثقہ کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہ اس کی توثیق ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صدوق کہا ہے۔ (الکاشف: 1/239)
مستدرک حاکم میں حضرمی بن لاحق چھپ گیا ہے۔ یہ وہم ہے۔ مسند شامیین طبرانی (323) میں حسن سند کے ساتھ اس کا ایک شاہد ہے۔
❀ علامہ سیوطی رحمہ اللہ (849-911ھ) کہتے ہیں:
لأن العطاس ورد فيه ذكر يخصه، فالعدول إلى غيره أو الزيادة فيه؛ عدول عن المشروع وزيادة عليه، وذلك بدعة ومدموم
چھینک کے بارے میں خاص ذکر وارد ہوا ہے، لہذا کوئی اور ذکر کرنا یا اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا شریعت کے طریقے سے انحراف اور اس میں اضافہ کی کوشش ہے۔ یہ کام بدعت اور قابل مذمت ہے۔
(الحاوي للفتاوي: 1/254-255) ء

② اذان کے بعد بدعی درود

اذان کے بعد درود پڑھنا مستحب ہے، البتہ بعض مؤذن اذان کے بعد بآواز بلند الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ پڑھتے ہیں، جو کہ بدعت ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں، سلف اس سے ناواقف تھے۔
❀ ملا علی قاری رحمہ اللہ (م: 1014ھ) لکھتے ہیں:
فما يفعله المؤذنون الآن عقب الأذان من الإعلان بالصلاة والسلام مرارا أصله سنة، والكيفية بدعة
اب جو مؤذن اذان کے بعد کئی دفعہ بلند آواز سے درود و سلام کہتے ہیں، اس کی اصل تو سنت ہے، لیکن کیفیت بدعت ہے۔
(مرقاة المفاتيح: 2/349-350)

تنبیہ :

❀ علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
يستحب أن يقال عند سماع الأولى من الشهادة: صلى الله عليك يا رسول الله، وعند الثانية منها: قرت عيني بك يا رسول الله، ثم يقول: اللهم متعني بالسمع والبصر بعد وضع ظفري الإبهامين على العينين، فإنه عليه السلام يكون قائدا له إلى الجنة، كذا فى كنز العباد
اذان میں پہلی شہادت (پہلی دفعہ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ) سن کر صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کہنا اور دوسری شہادت سن کر قَرَّتْ عَيْنِي بِكَ يَا رَسُولَ اللهِ” اے اللہ کے رسول! آپ کے سبب میری آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں۔“ کہنا مستحب ہے۔ پھر اذان سننے والا انگوٹھوں کے ناخن اپنی آنکھوں پر رکھ کر یہ کلمات بھی کہے: اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ ”اے اللہ! مجھے کانوں اور آنکھوں کے ساتھ فائدہ دے۔ “تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی طرف اس کی راہنمائی کریں گے۔ کنز العباد میں اسی طرح لکھا ہے۔
(رد المحتار: 3/398)
یہ بہرحال جسارت ہے، اسے بدعت کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

③ دوران وضو درود

❀ ایک فتویٰ ملاحظہ ہو:
يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم بعد غسل كل عضو
وضو میں ہر عضو دھونے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔
(فتاویٰ عالمگیری: 1/9؛ رد المحتار: 1/127)
یہ بدعت ہے، جس سے پہلے مسلمان ناواقف تھے۔ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں۔

④ نماز جمعہ کے بعد اجتماعی درود

نماز جمعہ کے بعد اجتماعی درود و سلام پڑھنا کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا باعث ثواب اور موجب سعادت ہے، لیکن کسی جگہ و ہیئت کے ساتھ اسے خاص کرنا جائز نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اسلام رحمہم اللہ سب سے بڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے والے تھے، ان سے ایسا کرنا قطعاً ثابت نہیں۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ وقت درود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس تشریف لاتے ہیں، عقل و نقل کے خلاف ہے، پہلے مسلمان اس کے تصور سے بھی ناواقف تھے۔
وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علم کی دنیا میں تشریف آوری کا نظریہ رکھنا فتیح بدعت ہے۔ یہ عقائد و نظریات سلف صالحین رحمہم اللہ کے عقائد و نظریات کے خلاف ہیں۔ سلف صالحین رحمہم اللہ تو قرآن و سنت پر کاربند تھے، وہ اگر ان عقائد کے حامل نہیں ہیں، تو ان عقائد کا بے اصل ہونا اور واضح ہو جاتا ہے۔ سلف سب سے بڑھ کر قرآن و سنت کی نصوص کو سمجھنے اور اپنانے والے تھے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے