ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا حکم: نذیراں بی بی کے نکاح کا شرعی فیصلہ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص703

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں:

میں مسمی غلام قادر ولد میاں قمر ساکن چک نمبر 14 دن، تحصیل و ضلع اوکاڑہ کا رہائشی ہوں۔ ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں، جو درج ذیل ہے:

میری حقیقی بیٹی، مسمات نذیراں بی بی، کا نکاح اس کے والد کی اجازت کے بغیر ہوا۔ نذیراں بی بی اپنی پھوپھی سے ملنے گئی تو اس نے ورغلا کر اپنے بیٹے امیر ولد نور (قوم مسلم شیخ، چک نمبر 35 ٹو اے، تحصیل و ضلع اوکاڑہ) کے ساتھ نکاح کردیا۔ اس نکاح کو سات ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

مگر مسمات نذیراں بی بی نہ تو اس نکاح پر راضی تھی اور نہ ہی وہ اپنے اس شوہر کو پسند کرتی ہے۔ اس نکاح کے بعد نذیراں بی بی نے نہایت سخت اور تنگدستی کے دن گزارے۔ بعد ازاں وہ اپنے والدین کے پاس واپس آگئی اور اب تقریباً چار ماہ سے اپنے والدین کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔

ان حالات میں سوال یہ ہے کہ:
کیا مسمات نذیراں بی بی نئے نکاح کی حقدار ہے یا نہیں؟
قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جواب عنایت فرمائیں۔

عند اللہ ماجور ہوں گے۔ کذب بیانی کا ذمہ دار سائل خود ہوگا۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال، صورتِ مسؤلہ میں یہ بات واضح ہے کہ:

◄ عورت نہ تو خود اپنا نکاح کرسکتی ہے،
◄ اور نہ ہی کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے۔

نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ولیِ مرشد کی اجازت لازمی شرط ہے۔

صحیح بخاری میں باب

بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ…
(صحیح بخاری، ج2، ص769)

یعنی جو شخص یہ بات کہتا ہے کہ نکاح ولی کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں، وہ اس آیت سے دلیل لیتا ہے:

{فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ}
"جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں نکاح سے مت روکو۔”

اگر ولی کو کوئی اختیار ہی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم کیوں دیا؟ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ولی کو حق ولایت حاصل ہے، چاہے عورت کنواری ہو یا بیوہ۔

اسی طرح آیت:
{وَلاَ تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ}
اور
{وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ}
میں بھی خطاب ولیوں سے کیا گیا ہے۔

لہٰذا ان نصوص سے ثابت ہوا کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت ناگزیر ہے۔

حدیث ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔”
یہ حدیث صحیح ہے اور جمہور علماء امت کے نزدیک نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے، ورنہ نکاح درست نہیں ہوگا۔

حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ…»
(اخرجه الأربعة إلا النسائي، وصححه أبو عونہ، ابن حبان، والحاکم، وابن کثیر، ویحییٰ بن معین وغیرہ)

یعنی جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر شوہر نے اس سے مباشرت کرلی ہو تو عورت کو مہر ملے گا۔

حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا»
(رواہ ابن ماجہ والدارقطنی، ورجاله ثقات، سبل السلام، ج3، ص120)

یعنی کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ خود اپنا نکاح کرے۔

امام محمد بن اسماعیل الامیر الایمانی کی شرح

وہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

"فیه دلیل علی ان لمراۃ لیس لھا ولایۃ فی الانکاح لنفسھا ولا لغیرھا…”
(سبل السلام، ج3، ص120)

یعنی عورت کو حق ولایت حاصل نہیں۔ نہ وہ اپنا نکاح خود کرسکتی ہے اور نہ کسی اور عورت کا ولی بن سکتی ہے۔ لہٰذا اس کی ولایت میں کیا گیا نکاح قابلِ اعتبار نہیں۔

نتیجہ

بشرط صحت سوال:

◈ مسمات نذیراں بی بی دختر غلام قادر، ساکن چک 14، کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔
◈ کیونکہ اس نکاح میں والد (ولی اقرب) کی اجازت شامل نہ تھی اور نہ ہی والد کو اس نکاح کا علم تھا۔
◈ لہٰذا نذیراں کی پھوپھی کا یہ اقدام سراسر خلافِ شریعت ہے۔
◈ اس نکاح کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔
◈ اب نذیراں بی بی نیا نکاح کرنے کی حق دار ہے۔

عدالت محاذ سے اس کی توثیق بھی ضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے