ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا حکم: قرآن و سنت کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1، ص 697

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں: میری بیٹی رخسانہ عرف ریحانہ، عمر تقریباً ۱۸ سال، ولد نذیر احمد کو منظور احمد ولد نواب دین نے اغوا کر لیا ہے۔ وہ شخص بڑا اثر و رسوخ رکھتا ہے اور اس نے عدالت میں جا کر عدالتی نکاح بھی کر لیا ہے۔ میں اس چیز کو سخت برا سمجھتا ہوں۔
لہٰذا قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کی جائے کہ یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ میں اپنی بیٹی کا نکاح کسی اور جگہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ نکاح میری اجازت اور مرضی کے بغیر ہوا ہے اور لڑکی خود بھی اس نکاح پر راضی نہیں ہے۔
کیا شرعاً ولی (باپ) کی اجازت کے بغیر کیا گیا نکاح صحیح ہے یا نہیں؟

(سائل: نزیر احمد ولد محمد شریف موچی، چک نمبر ۱۰ بولا گڑھی، ڈاکخانہ پتوکی، تحصیل چونیاں، ضلع قصور)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں اگر سوال درست ہے تو یہ نکاح ازروئے شرع باطل ہے، یعنی منعقد ہی نہیں ہوا۔

قرآن و حدیث سے دلائل

صحیح البخاری کی روایت

(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍِّقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32])

◄ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا اور صحیح نہیں ہے۔
◄ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

* فلا تعضلوهن [البقرة: 232] (جب عورتوں کو طلاق دی جائے اور وہ عدت پوری کر لیں تو انہیں اپنے سابقہ شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو)۔ یہ حکم بیوہ اور کنواری دونوں کو شامل ہے۔
* ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا [البقرة: 221]
* وأنكحوا الأيامى منكم [النور: 32]

ان آیات میں ولیوں کو خطاب کیا گیا ہے، لہٰذا امام بخاریؒ نے اس سے دلیل پکڑی کہ نکاح کے درست ہونے کے لیے ولی کی اجازت لازمی ہے۔ اگر ولی کی اجازت نہ ہو تو نکاح باطل ہے۔

احادیث مبارکہ

حدیث ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا نكاح إلا بولي ") (صحیح البخاری :ج۲ص ۷۶۹)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: *”ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا”*۔
اسے امام ابو داؤد، امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ابن حبان اور امام حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔

حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له ") (رواه أحمد، وأبو داود، وابن ماجه، والترمذي، وقال: حديث حسن)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
*”جو عورت ولی (باپ وغیرہ) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ اگر اس نکاح کے بعد جماع کیا گیا تو مہر دینا پڑے گا۔ اور اگر ولیوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو سلطان ولی ہے اس کا جس کا ولی نہ ہو۔”*

باپ کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص ولی نہیں بن سکتا۔

خلاصہ مسئلہ

◈ قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
◈ باپ کے زندہ ہونے کی حالت میں اس کی اجازت بنیادی شرط ہے۔
◈ لہٰذا مذکورہ عدالتی نکاح، جو لڑکی اور اس کے والد دونوں کی مرضی کے بغیر ہوا، شرعاً باطل اور غیر معتبر ہے۔
◈ عدالت کو بھی شرعاً یہ حق نہیں کہ ایسی لڑکی کا نکاح پڑھا دے جسے اغوا کیا گیا ہو اور جو خود بھی راضی نہ ہو۔

وضاحت

یہ فتویٰ صرف شرعی مسئلے کی وضاحت ہے۔ قانونی پہلو اور اس پر عمل درآمد کے لیے عدالت مجاز کی توثیق ضروری ہے۔
احادیث مرفوعہ، قرآن کی مذکورہ آیات اور بیس صحابہ کرام کی روایات سے یہی ثابت ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سرے سے ہوتا ہی نہیں۔
مفتی صاحب کسی قانونی پہلو کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے