سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیٹی گھر سے سلائی کا کام سیکھنے جا رہی تھی کہ راستہ میں چند لڑکوں نے اسے روک لیا اور نکاح فارم منگوا کر زبردستی اس پر دستخط کروا لیے، جبکہ میں اس کا ولی یعنی والد اس صورتِ حال سے بالکل بے خبر ہوں اور میری رضا مندی بھی اس میں شامل نہیں ہے۔ تو فرمائیے کہ کیا ایسا نکاح جو ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہو شرعاً جائز ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحتِ سوال و بشرط صحتِ واقعہ، صورتِ مسئولہ میں یہ واضح رہے کہ نکاح کی صحت کے لیے ولیِ اقرب و مرشد کی اجازت شرعاً لازمی ہے۔ ولیِ اقرب کی اجازت کے بغیر نکاح قرآن و حدیث کی صریح اور صحیح نصوص کے مطابق منعقد ہی نہیں ہوتا۔
قرآن و حدیث سے دلائل
صحیح بخاری میں باب ہے:
(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32]
(صحیح بخاری :ج۲ ص ۷۶۹)
یعنی: ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”جب تم اپنی بیویوں کو رجعی طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں اپنے اگلے شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو۔“
یہ حکم عام ہے، لہٰذا بیوہ اور کنواری دونوں کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے۔ مزید فرمایا:
”اپنی عورتوں کا مشرکوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں۔“
اور فرمایا:
”بیوہ اور غیر شادی شدہ مردوں کا نکاح کر دیا کرو۔“
ان تینوں آیات میں خطاب ولیوں کو ہے۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آیات سے دلیل پکڑی کہ نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت شرط ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ولیوں کو یوں خطاب نہ فرماتا۔ پس ان آیات سے بالکل واضح ثابت ہوا کہ ولی (خصوصاً والد اگر زندہ ہوں) کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ہے۔
احادیث سے دلائل
➊
((وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا نكاح إلا بولي "))
(تحفة الاحوذی :ج۲ ص ۱۷۵ ،۱۷۶ و رواہ احمد و ابو داؤد وابن حبان والحاکم و صححاہ :فقه السنة ج۲ ص ۱۱۲)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔“
اس حدیث کو امام ابو داؤد، امام ترمذی، امام احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے اور امام ابن حبان اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
➋
((عَنْ عَائِشَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا – قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ»))
(اخرجه الاربعة إلا النسائی، وصححہ ابو عوانہ، وابن حبان، والحاکم، قال ابن کثیر، وصححہ یحییٰ بن معین وغیرہ من الحفاظ، سبل السلام: ج۳ ص ۱۱۸)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ اور اگر شوہر نے اس سے ہمبستری کر لی تو اس پر مہر مثل لازم ہوگا کیونکہ اس نے اس کے جسم کو حلال سمجھ کر فائدہ اٹھایا۔ اور اگر ولیوں کے درمیان اختلاف ہو تو سلطان (حکمران) ولی ہے اس عورت کا جس کا کوئی ولی نہ ہو۔“
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
خلاصہ و شرعی حکم
ان مذکورہ تین آیات قرآنی اور صحیح احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ نکاح کے لیے ولی اقرب (والد) کی اجازت لازمی شرط ہے۔ بغیر ولی کی اجازت کے نکاح شرعاً باطل ہے۔ اور والد کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص ولی نہیں بن سکتا۔
لہٰذا بشرط صحت سوال، یہ نکاح شرعاً باطل ہے۔ یہ صرف شرعی مسئلہ کا بیان ہے۔ اس کی توثیق عدالتِ مجاز سے ضروری ہے۔ عدالت ہی ضابطہ کی کارروائی مکمل کر کے اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ صادر کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ البتہ مفتی کسی قسم کی قانونی کارروائی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب۔