ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا حکم اور نزیراں بی بی کا شرعی مسئلہ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1 ص751

سوال

میں غلام قادر ولد میاں قمر، رہائشی چک نمبر ۱۴ ون تحصیل و ضلع اوکاڑہ، ایک شرعی مسئلے کے بارے میں رہنمائی چاہتا ہوں۔

میری حقیقی بیٹی، مسمات نزیراں بی بی کا نکاح اس کے والد یعنی میرے اجازت کے بغیر کر دیا گیا۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ نزیراں بی بی اپنی پھوپھی سے ملنے گئی، تو اس نے ورغلا کر اس کا نکاح اپنے بیٹے امیر ولد نور قوم مسلم شیخ سکنہ چک نمبر ۳۵ ٹو آر تحصیل و ضلع اوکاڑہ سے کر دیا۔ اس نکاح کو ۷ ماہ گزر چکے ہیں۔

مسمات نزیراں بی بی اس نکاح پر راضی نہ تھی، نہ ہی وہ اپنے اس شوہر کے گھر رہنا چاہتی ہے، اور نہ ہی مذکورہ شوہر اس کے ساتھ آباد ہونے پر آمادہ ہے۔ آخرکار ایک دن موقع پا کر نزیراں بی بی اپنے والدین کے پاس آگئی۔ اسے والدین کے پاس رہتے ہوئے تقریباً ۴ ماہ گزر چکے ہیں اور اب وہ وہیں زندگی گزار رہی ہے۔

ان حالات میں علمائے دین سے سوال ہے کہ کیا مذکورہ نزیراں بی بی اب نئے نکاح کی حقدار ہے یا نہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر سوال درست اور مکمل ہے تو صورتِ مسئولہ میں یہ واضح ہے کہ:

✿ عورت نہ تو اپنا نکاح خود کر سکتی ہے، اور نہ کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے۔
✿ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ولی مرشد کی اجازت لازمی شرط ہے۔

صحیح بخاری سے دلیل

(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32]
(ج۲ ص۷۶۹)

اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے۔ اگر ولی کا کوئی اختیار ہی نہ ہو تو قرآن مجید میں اسے یہ حکم دینے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا عورت خواہ بیوہ ہو یا کنواری، نکاح میں ولی کی اجازت لازمی ہے۔

حدیث کی دلائل

➊ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "لا نكاح إلا بولي” (نیل الاوطار :ج۳ص ۱۱۷)

یعنی ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ یہ حدیث صحیح ہے اور جمہور علمائے امت کے نزدیک نکاح کے لیے ولی کی اجازت لازمی شرط ہے، ورنہ نکاح صحیح نہیں ہوگا۔

➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ…» (سبل السلام: ج۳ ص۱۱۸)

یعنی جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر دخول ہو جائے تو عورت مہر کی حقدار ہوگی۔

➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا» (سبل السلام ج۲ ص۱۲۰)

یعنی عورت نہ کسی عورت کا نکاح کر سکتی ہے اور نہ خود اپنا نکاح کر سکتی ہے۔

امام محمد بن اسماعیل الامیر الیمانی اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ عورت کو ولایت حاصل نہیں۔ نہ وہ خود اپنا نکاح کر سکتی ہے اور نہ کسی اور عورت کی ولی بن سکتی ہے۔ اس کی ولایت میں کیا گیا نکاح غیر معتبر ہے۔

نتیجہ

لہٰذا بشرط صحت سوال، مسمات نزیراں بی بی دختر غلام قادر، رہائشی ۱۴ آر، کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا کیونکہ والد (ولی اقرب) کی اجازت موجود نہ تھی اور نہ ہی والد کو اس نکاح کا علم تھا۔

اس لیے نزیراں بی بی کا نکاح باطل ہے اور وہ نئے نکاح کی حقدار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نزیراں کی پھوپھی کا یہ اقدام شریعت کے بالکل خلاف ہے۔

البتہ قانونی حیثیت کے اعتبار سے عدالتِ مجاز سے توثیق ضروری ہوگی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے