ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں
➊ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نكاح إلا بولي
”ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1836 ، كتاب النكاح: باب فى الولى ، ابو داود: 2085 ، ترمذي: 1101 ، دارمی: 137/2 ، أحمد: 394/4 ، ابن ماجة: 1881 ، ابن الجارود: 701 ، أبو يعلى: 195/13 ، ابن حبان: 1243 – الموارد ، دار قطنی: 218/3 ، حاكم: 170/2 ، بيهقي: 107/7]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيما امرأة نـكــحــت بغير إذن وليها فنكاحها باطل ثلاث مرات
”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین مرتبہ فرمایا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1835 – أيضا ، ابو داود: 2083 ، أحمد: 47/6 ، ترمذي: 1102 ، ابن ماجة: 1879 ، ابن الجارود: 700 ، دارمي: 7/3 ، دارقطني: 221/3 ، حاكم: 168/2 ، بيهقى: 105/7 ، أبو يعلى: 147/8]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسها فإن الزانية هي التى تزوج نفسها
”کوئی عورت کسی دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے اور نہ ہی خود اپنا نکاح کرے ، بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1527 ، كتاب النكاح: باب لا نكاح إلا بولى ، ابن ماجه: 1882 ، دارقطني: 227/3 ، بيهقي: 110/7 ، شيخ البانيؒ نے زانيه والے جملے كے علاوه اسے صحيح كها هے۔]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا نکاح منعقد ہونے کے لیے ولی کی اجازت شرط ہے اور اس کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوتا۔
(جمہور، مالکؒ ، شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابن منذرؒ ) کسی صحابی سے بھی اس کی مخالفت مروی نہیں۔
(ابو حنیفہؒ) کسی صورت میں بھی ولی کی اجازت ضروری نہیں ۔
(اہل ظاہر) کنواری لڑکی کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے جبکہ شوہر دیدہ کے لیے نہیں ۔
[فتح البارى: 187/9 ، بداية المجتهد: 20/3 ، نيل الأوطار: 195/4 ، سبل السلام: 1320/3 ، الروضة الندية: 30/2 ، المغنى: 340/9]
(قرطبیؒ) اس آیت وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا [البقرة: 221] کے متعلق رقمطراز ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ۔
[تفسير قرطبي: 49/3]
(شمس الحق عظیم آبادیؒ) حق یہی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ہے۔
[عون المعبود: 191/2]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تحفة الأحوذى: 241/4]
جن احادیث میں یہ الفاظ ہیں:
الشيب أحق بنفسها من وليها
”شوہر دیدہ عورت اپنے نفس کے متعلق اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔“
[مسلم: 1421 ، ابو داود: 2098 ، ترمذى: 1108 ، ابن ماجة: 1870 ، نسائي: 84 ، دارمي: 138/2 ، بيهقي: 115/7 ، طحاوي: 366/4 ، شرح السنة: 30/9 ، حميدي: 239/1]
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ :
ليس للولى مع الشيب أمر
”شوہر دیدہ عورت کے بارے میں ولی کا کوئی اختیار نہیں ۔“
[ضعيف: التعليقات الرضية على الروضة الندية: 156/2 ، ابو داود: 2100 ، كتاب النكاح: باب فى الشيب ، نسائي: 84/6 ، ابن حبان: 1241 – الموارد]
وہ گذشتہ احادیث کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان میں تو محض شوہر دیدہ خواتین کو زیادہ حق دار قرار دیا گیا ہے کہ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ کم اختیار بھی کسی کا ابھی باقی ہے اور وہ ولی کا ہے یعنی شوہر دیدہ عورت ولی سے زیادہ اختیار رکھتی ہے اس لیے وہ جہاں چاہے اس کے اولیاء کو وہیں اس کا نکاح کر دینا چاہیے۔ ان احادیث میں ایسا کہیں بھی نہیں ہے کہ عورت ولی کے بغیر نکاح کر سکتی ہے ۔
جو لوگ ولی کی اجازت ضروری تصور نہیں کرتے ان کے دلائل یہ ہیں:
➊ جن آیات میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے مثلا
حَتَّي تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ [البقرة: 230]
”حتى کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی اور سے شادی کر لے ۔“
فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ [البقرة: 232]
”انہیں اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے مت رو کو۔“
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگرچہ ان آیات میں بظاہر نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہی کی گئی ہے لیکن دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نکاح کرے لیکن ولی کی اجازت کے ساتھ اگر ان آیات کے بعد ولی کی اجازت کا حکم منسوخ ہو گیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بتلا دیتے حالانکہ ایسی کوئی بات منقول نہیں۔
➋ اسے بیع پر قیاس کیا جاتا ہے یعنی جیسے بیع کے انعقاد میں محض بائع اور مشتری کی رضا مندی ہی کافی ہے اسی طرح نکاح میں بھی لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی ہی کافی ہے۔
یاد رہے کہ قیاس نص کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا اس لیے یہ باطل ہے۔
◈ واضح رہے کہ ولی سے مراد باپ ہے ، باپ کی غیر موجودگی میں دادا ، پھر بھائی ، پھر چچا ہے (یعنی عصبہ رشتہ دار ) ۔ اگر کسی کے دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر کوئی اختلاف واقع ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کو ہو گی اور اگر دونوں ولی برابر حیثیت کے ہوں تو اختلاف کی صورت میں حاکم ولی ہو گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1