ولی کی اجازت کے بغیر عدالتی نکاح کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج۱، ص۶۹۰

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میری بچی جس کی عمر تقریباً ۱۸ سال ہے، اسے ایک زمیندار نے اغوا کر لیا ہے جو بڑا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اس نے عدالت میں جا کر میری بچی سے عدالتی نکاح کر لیا ہے جبکہ میں اس کو سخت ناپسند کرتا ہوں۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ میں اپنی بچی کا نکاح کسی اور جگہ کرنا چاہتا ہوں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (قَد عَلِمناَ مَافَرَضنَا عَلَیھِم مِن اَزوَاجِھِم)
یعنی "ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے ان پر ان کی بیویوں کے بارے میں کیا فرض کیا ہے۔” (سورۃ الاحزاب ۳۳، آیت نمبر ۵۰)

اس سے پہلے الفاظ ہیں کہ اگر کوئی مومنہ عورت نبی کریم ﷺ کو اپنا نفس ہبہ کر دے تو یہ صرف آپ کے لئے خاص اجازت ہے، دوسروں کے لئے یہ اجازت نہیں۔ اس سیاق و سباق سے ابن عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سمیت دیگر اہلِ علم کا کہنا ہے کہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ (تفسیر فتح القدیر، آیت متعلقہ: ج۲، ص۲۹۰)

احادیث مبارکہ

حدیث ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "لا نکاح إلا بولي”
"ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔” (مسند احمد، ابو داؤد، ابن حبان، حاکم)
ابن حبان اور حاکم دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر شوہر اس کے ساتھ ہمبستری کرے تو مہر دینا لازم ہوگا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر جھگڑا پیدا ہو تو سلطان اس عورت کا ولی ہوگا جس کا کوئی ولی نہ ہو۔” (مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمذی مع التحسین، ابن حبان، حاکم، ابو عوانہ)

امام حاکم نے فرمایا ہے کہ اس مسئلے میں امہات المؤمنین حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہن اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تیس کے قریب روایات موجود ہیں۔ (الروضۃ الندیہ: ج۲، ص۱۱)

شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح شمار کیا ہے۔

نتیجہ احادیث و تفاسیر سے

ان صحیح احادیث اور واضح آیات کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں سب سے پہلا حق ولی کا ہے، اور ولایت میں سب سے زیادہ حق باپ کو حاصل ہے۔

آثارِ صحابہ و تابعین

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا واقعہ
مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ایک لڑکی اپنے ولی سے اختلاف کر کے عدالت گئی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قاضی کو کہا کہ لڑکی کے باپ کو سمجھاؤ کہ جہاں لڑکی چاہتی ہے وہاں نکاح کرے۔ اگر وہ مان جائے تو ٹھیک، ورنہ اس کا حقِ ولایت ختم کر کے قاضی نکاح کرائے۔ (ابن ابی شیبہ: ج۲،۴، ص۱۷۱)

رسول اللہ ﷺ کے فیصلے
➊ ایک بیوہ عورت کا واقعہ ہے جس کے شوہر کے شہید ہونے کے بعد اس کے باپ نے خاندان میں نکاح کر دیا اور یتیم بچوں کے چچا کو رد کر دیا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تم نے اسے مجبور کیا؟ باپ نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تیرا نکاح ختم ہوا۔” پھر عورت سے کہا: "جس سے چاہو نکاح کر لو۔” (موطا امام مالک، ابن ابی شیبہ)

➋ ایک کنواری لڑکی کے بارے میں آپ ﷺ نے ولی کو بلایا اور لڑکی کو اختیار دیا۔ البتہ اس لڑکی نے اپنے باپ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۲،۳، ص۱۳۷-۱۳۸)

حسن بصری رحمہ اللہ کا قول
اگر ولی اور عورت میں اختلاف ہو تو سلطان دیکھے۔ اگر ولی تنگ کر رہا ہو تو نکاح کر دے، ورنہ معاملہ ولی کے سپرد کر دے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۲،۳، ص۱۴۱)

قاضی شریح کا فیصلہ
ایک عورت اپنی ماں اور چچا کے ساتھ قاضی کے پاس آئی۔ ماں کسی اور جگہ نکاح پر زور دے رہی تھی، چچا دوسری جگہ۔ قاضی نے لڑکی کو اختیار دیا۔ اس نے ماں کی رائے پسند کی۔ قاضی نے چچا سے پوچھا: کیا اجازت دیتے ہو؟ چچا نے انکار کیا۔ قاضی نے کہا: "اس سے پہلے کہ تیری اجازت ختم کی جائے، سوچ لے۔” چچا نے پھر انکار کیا۔ قاضی نے کہا: "لڑکی، جاؤ جس سے چاہو نکاح کر لو۔”

موجودہ مسئلے پر حکم

* اگر باپ کے بارے میں تحقیق ہو کہ وہ بلا وجہ لڑکی پر زور ڈال رہا تھا تو عدالت اس کا اختیار ختم کر سکتی ہے۔
* اگر لڑکی باپ کی رضا کے ساتھ تھی لیکن حالات کی وجہ سے دباؤ میں سمجھوتہ کر لیا، تو اس پر جبر شمار ہوگا، اور ایسے میں باپ کا حق ولایت ختم نہیں ہوتا۔
* لڑکی پر بھی جبر نہیں کیا جا سکتا۔

اغوا اور جبر کا پہلو

یہاں دوسرا پہلو یہ ہے کہ اجنبی مرد و عورت کا نکاح شرعی اجازت کے بغیر اغوا اور جبر کے ساتھ ہوا۔

* اغوا اور غصب میں فرق ہے لیکن عام طور پر لوگ دونوں کو ایک ہی سمجھتے ہیں۔
* دونوں صورتوں میں مرد پر تعزیر لازم ہے۔
* اگر معاملہ "غصب” کا ہو تو لڑکی سزا سے بچ سکتی ہے، ورنہ اسے بھی تعزیر دی جائے گی۔

خلاصہ

* نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے۔
* عدالتی نکاح، ولی یعنی باپ کی اجازت کے بغیر شرعاً درست نہیں۔
* اگر باپ ظلم کرے تو قاضی کو حق ہے کہ فیصلہ کرے۔
* زبردستی یا اغوا کے ذریعے نکاح ناجائز اور باطل ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے