ولاء اور براء کا مفہوم کیا ہے؟
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں "ولاء” اور "براء” کا تصور ایک انتہائی اہم اور بنیادی عقیدہ ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا تعلق (ولاء) اور بےزاری (براء) صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو۔
ولاء اور براء کا مفہوم
❀ براء: اس کا مطلب ہے ہر اس چیز سے بیزاری کا اظہار کرنا جس سے اللہ تعالیٰ نے بیزاری ظاہر کی ہے۔
❀ ولاء: اس کا مطلب ہے محبت، دوستی، وفاداری اور تعاون اُن لوگوں کے ساتھ رکھنا جو اللہ کے دین پر ہیں اور اللہ کے محبوب ہیں۔
قرآن مجید سے دلائل
1. حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی مثال
﴿قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبرهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَءؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَدوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا…﴿٤﴾ سورة الممتحنة
’’یقینا تمہارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم علیہ السلام اور ان لوگوں میں ہے جو ان کے ساتھ تھے اس وقت جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا، بے شک ہم تم سے اور ان سے بری ہیں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ ہم تم سے منکر ہوئے، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہوگیا ہے۔‘‘
یہ آیت مشرک قوم سے مکمل براءت کے اظہار کی واضح دلیل ہے۔
2. اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں
﴿وَأَذنٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ إِلَى النّاسِ يَومَ الحَجِّ الأَكبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرىءٌ مِنَ المُشرِكينَ وَرَسولُهُ…﴿٣﴾ سورة التوبة
’’اور حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دستبردار ہے)۔‘‘
یہ اعلان حج اکبر کے دن ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہیں۔
مومن پر براء کی ذمہ داری
❀ ہر مشرک اور کافر سے ذاتی سطح پر براءت اختیار کرے۔
❀ ہر اس عمل سے بیزاری کا اظہار کرے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ناپسند فرماتے ہیں، چاہے وہ عمل کفر کی حد تک نہ پہنچتا ہو بلکہ فسق و نافرمانی کی نوعیت رکھتا ہو۔
﴿وَلـكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ أُولـئِكَ هُمُ الرّشِدونَ ﴿٧﴾ سورة الحجرات
’’لیکن اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ راہ ہدایت والے ہیں۔‘‘
گناہ گار مومن کے ساتھ رویہ
❀ اگر کوئی مومن گناہ کرتا ہے لیکن اس کے دل میں ایمان موجود ہے تو:
✿ ایمان کی بنا پر اس سے محبت رکھی جائے گی۔
✿ گناہ کی وجہ سے اس کے عمل سے نفرت کی جائے گی۔
یہ کیفیت انسانی زندگی میں عام ہے، جیسے ایک کڑوی دوا جو ذائقہ میں ناپسندیدہ ہے لیکن شفا کی امید کی وجہ سے پسندیدہ ہوتی ہے۔
کافر کے ساتھ رویہ
❀ کافر اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مومنین کا دشمن ہوتا ہے۔
❀ اس سے مکمل بیزاری رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ يُخرِجونَ الرَّسولَ وَإِيّاكُم أَن تُؤمِنوا بِاللَّهِ رَبِّكُم إِن كُنتُم خَرَجتُم جِهـدًا فى سَبيلى وَابتِغاءَ مَرضاتى تُسِرّونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَأَنا۠ أَعلَمُ بِما أَخفَيتُم وَما أَعلَنتُم وَمَن يَفعَلهُ مِنكُم فَقَد ضَلَّ سَواءَ السَّبيلِ ﴿١﴾ سورة الممتحنة
’’اے مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لیے (مکہ سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے، منکر ہیں اور اس وجہ سے کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو، پیغمبر کو اور تم کو جلاوطن کرتے ہیں۔ تم ان کی طرف پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور جو کچھ تم خفیہ اور علانیہ طور پر کرتے ہو، وہ مجھے معلوم ہے اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘
یہود و نصاریٰ سے دوستی کی ممانعت
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصـرى أَولِياءَ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الظّـلِمينَ ﴿٥١﴾ فَتَرَى الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ يُسـرِعونَ فيهِم يَقولونَ نَخشى أَن تُصيبَنا دائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأتِىَ بِالفَتحِ أَو أَمرٍ مِن عِندِهِ فَيُصبِحوا عَلى ما أَسَرّوا فى أَنفُسِهِم نـدِمينَ ﴿٥٢﴾ سورة المائدة
’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا۔ بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ سو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کر ملے جاتے ہیں(اور یہودیوں میں گھستے چلے جارہے ہیں)اور کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے۔ سو قریب ہے کہ اللہ فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے) پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر، جو وہ چھپایا کرتے تھے، پشیمان ہو کر رہ جائیں گے۔‘‘
کفار کی فطرت
﴿وَلَن تَرضى عَنكَ اليَهودُ وَلَا النَّصـرى حَتّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم…﴿١٢٠﴾ سورة البقرة
’’اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی یہاں تک کہ آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار کر لیں۔‘‘
﴿وَدَّ كَثيرٌ مِن أَهلِ الكِتـبِ لَو يَرُدّونَكُم مِن بَعدِ إيمـنِكُم كُفّارًا…﴿١٠٩﴾ سورة البقرة
’’بہت سے اہل کتاب یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لا چکنے کے بعد وہ تمہیں پھر کافر بنا دیں۔‘‘
اعمال کے حوالے سے براء
❀ ہر حرام عمل سے براءت واجب ہے۔
❀ حرام اعمال کو پسند کرنا اور انہیں اپنانا جائز نہیں۔
❀ گناہ گار مومن سے گناہ کی بنا پر بیزاری ہوگی لیکن اس کے ایمان کی بنا پر اس سے محبت رکھی جائے گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب