وقف شدہ زمین کی آمدنی سے مسجد کی چھت بنوانا – تفصیلی شرعی رہنمائی
سوال:
ایک علاقے میں چند بیگھے زمین وقف کی گئی ہے، اور اس کی آمدنی کو لوگ اپنی مرضی سے مختلف کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ بعض ایسی مساجد ہیں جنہیں سخت ضرورت ہے کہ ان کی چھت ڈالی جائے، کنواں کھدوایا جائے وغیرہ۔
پوچھا گیا ہے کہ:
◈ کیا اس وقف شدہ زمین کی آمدنی سے مسجد کی چھت بنوائی جا سکتی ہے؟
◈ کیا اس آمدنی سے کنواں، پل وغیرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے؟
◈ کیا اس آمدنی کو دینی کتابیں خریدنے یا مدرسین کی تنخواہوں اور طلباء کی امداد میں صرف کیا جا سکتا ہے؟
◈ کیا اس زمین کو فروخت کر کے اس کی قیمت مسجد کی تعمیر پر خرچ کی جا سکتی ہے؟
◈ اسی طرح آج کل زکوٰۃ، فطرہ اور عشر وغیرہ کہاں خرچ کیے جائیں؟
کیونکہ ان کے لیے قرآن میں بیان کردہ مصارف میں سے بعض مصارف کا حصول موجودہ دور میں مشکل ہے، تو کیا ان اموال کو مسجد کی مرمت، مدرسین اور طلباء کی امداد میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1. وقف کے مصارف کی تعین اور اس کی پابندی
◈ اگر زمین وقف کرتے وقت وقف کرنے والے نے یہ شرط لگائی ہو کہ اس کی آمدنی فلاں فلاں جگہ خرچ کی جائے گی، تو اس شرط کی پابندی شرعاً ضروری ہے اور اسی میں تصرف کیا جائے گا۔
◈ ایسی صورت میں ان متعین جگہوں کے علاوہ آمدنی کو کہیں اور خرچ کرنا جائز نہیں۔
2. اگر مصرف کی کوئی تعیین نہیں کی گئی ہو
◈ اگر واقف نے یہ نہ بتایا ہو کہ آمدنی کہاں خرچ کی جائے گی، صرف اتنا کہا ہو کہ اسے "نیک کاموں” میں خرچ کیا جائے، تو ایسی صورت میں یہ آمدنی درج ذیل امور پر خرچ کی جا سکتی ہے:
❀ مسجد کی تعمیر یا مرمت (مثلاً: چھت بنوانا)
❀ کنواں یا پل بنوانا
❀ مدرسین کی تنخواہیں
❀ طلباء کے وظائف
❀ عوام کے فائدے کے لیے دینی کتابوں کی خریداری
◈ اس صورت میں کسی متعین مصرف کی مخالفت نہیں ہو رہی، اس لیے یہ جائز ہے، جیسا کہ فقہی اصولوں میں وضاحت موجود ہے۔
3. وقف شدہ زمین کو فروخت کرنے کا حکم
◈ شرعی طور پر وقف شدہ زمین کو فروخت کرنا جائز نہیں۔
◈ صرف اس صورت میں فروخت جائز ہو سکتی ہے جب اس کے تمام منافع کے ذرائع ختم ہو چکے ہوں (یعنی زمین کسی بھی طور قابلِ استعمال نہ ہو)۔
◈ رسول اللہ ﷺ نے وقفِ عمر کے متعلق فرمایا:
"لا یباع”
(بخاری: کتاب الشروط، باب الشروط فی الوقف 3/185، مسلم: کتاب الوصیة، باب الوقف 3/1255، حدیث 1738)
4. زکوٰۃ، فطرہ اور عشر کے مصارف
◈ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف منصوص (یعنی واضح طور پر بیان شدہ) ہیں۔
◈ موجودہ دور میں بھی بالخصوص ہندوستان میں یہ تمام یا اکثر مصارف پائے جاتے ہیں، مثلاً:
❀ فقراء
❀ مساکین
❀ عاملین علیھا (بشرطیکہ کسی صحیح نظام کے تحت حکومت کی طرف سے مقرر ہوں)
❀ مؤلفۃ القلوب
❀ غارمین
❀ ابن السبیل
◈ یہ امر باعث تعجب ہے کہ بعض لوگ ان واضح مصارف کو نظر انداز کرتے ہیں۔
5. زکوٰۃ و صدقات سے مسجد کی تعمیر کا حکم
◈ چونکہ زکوٰۃ "اوساخ الناس” (یعنی مال کی گندگی) ہے، اس کو مسجد کی تعمیر یا مرمت میں خرچ کرنا بالکل ناجائز ہے۔
6. مدارس، مدرسین اور طلباء کے لیے زکوٰۃ
◈ مدارس دینیہ اور ان کے مدرسین کو "فی سبیل اللہ” یا "العاملین” کے زمرے میں شامل کرنا ایک محلِ نظر بات ہے (یعنی اس میں اختلاف ہے)۔
◈ البتہ غریب طلباء جنہیں فقر و مسکنت لاحق ہو، ان پر:
❀ زکوٰۃ
❀ عشر
❀ صدقہ فطر
❀ قربانی کی کھال کی رقم
خرچ کرنا بلا شبہ جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب