وقف: لغوی، اصطلاحی مفہوم اور شرعی حیثیت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جو شخص اپنی کوئی ملکیت فی سبیل اللہ وقف کر دے تو وہ وقف کنندہ ہو جائے گا
لغوی وضاحت: لفظِ وقف باب وَقَفَ يَقِفُ (ضرب) سے مصدر ہے اس کا معنی ”ٹھہرنا ، ٹھہرانا اور فی سبیل اللہ وقف کرنا“ ہے۔
[القاموس المحيط: ص/ 1112 ، المعجم الوسيط: ص/ 914 ، المنجد: ص/ 981]
اصطلاحی تعریف: قربِ الٰہی کی غرض سے کسی مال کو بعینہ تصرف سے روک دینا اور مباح مصارف میں اس سے نفع پہنچانا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 7601/10 ، فتح القدير: 37/5 ، اللباب: 180/2 ، الدر المختار: 391/3 ، كشاف القناع: 267/4]
مشروعیت: انفاق فی سبیل کی تمام آیات اس کا ثبوت ہیں ، جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ [آل عمران: 92]
”جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے ۔“
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ [البقرة: 267]
”اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو ۔“
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ [الحديد: 10]
”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے ۔“
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثه أشياء: صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعوله
”جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا ثواب اسے موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے: صدقہ جاریہ ، علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو اور صالح اولا د جو مرنے والے کے لیے دعا کرے ۔“
[مسلم: 1631 ، كتاب الوصية: باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته ، الأدب المفرد للبخاري: 38 ، ابو داود: 2880 ، ترمذي: 1376 ، أحمد: 372/2 ، ابن خزيمة: 2494 ، ابو يعلى: 343/11 ، مشكل الآثار: 190/1 ، بيهقي: 278/6 ، شرح السنة: 237/1]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا ، آپ اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ :
إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها ، قال: فتصدق بها عمر أنه لا يباع ولا يوهب ولا يورث وتصدق بها فى الفقراء وفي القربى وفي الرقاب وفى سبيل الله وابن السبيل والضيف ، ولا جناح على من وليها أن يأكل منها بالمعروف ويطعم غير متمول
”اگر جی چاہے تو اصل زمین اپنی ملکیت میں باقی رکھ لو اور پیداوار صدقہ کر دو ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کر دیا کہ نہ اسے فروخت کیا جائے گا ، نہ اسے ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت چلے گی ۔ اسے آپ نے محتاجوں کے لیے ، رشتہ داروں کے لیے اور غلام آزاد کرانے کے لیے ، اللہ کے دین کی تبلیغ کے لیے اور مہمانوں کے لیے صدقہ (وقف) کر دیا اور یہ کہ اس کا متولی و نگران اگر دستور کے مطابق اس میں سے حسب ضرورت وصول کرے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں ۔“
[بخاري: 2737 ، كتاب الشروط: باب الشروط فى الوقف ، مسلم: 1632 – 1633 ، ابو داود: 2878 ، نسائي: 230/6 ، ترمذي: 1375 ، ابن ماجة: 2396 ، أحمد: 55/2 ، طحاوي: 249/2 ، بيهقي: 158/6 ، دار قطني: 186/4]
➌ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں بئر رومہ (میٹھے پانی کا کنواں) خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔
[حسن: إرواء الغليل: 1594 ، نسائى: 3608 ، كتاب الأحباس: باب وقف المساجد ، ترمذي: 3703 ، بخاري تعليقا: 2351 ، كتاب المساقاة: باب من رأى صدقة الماء وهبته ووصيته جائزة مقسوما كان أو غير مقسوم]
➍ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أما خالد فقد حبس أدراعه وأعتده فى سبيل الله
”خالد نے تو اپنی تمام زرہیں اور سامانِ حرب اللہ کے راستے میں وقف کر رکھا ہے ۔“
[بخاري: 1468 ، كتاب الزكاة: باب قول الله تعالى وفي الرقاب والغارمين ، أحمد: 322/2 ، ابو داود: 1623 ، نسائي: 2464]
(ترمذیؒ) ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور متقدمین علما میں وقف کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ملتا ۔
[سنن ترمذي: 660/3]
(قرطبیؒ) وقف کا منکر اجماع کا منکر ہے۔
[تفسير قرطبي: 339/6]
(جمہور ، ابو حنیفہؒ) زیادہ صحیح قول کے مطابق یہ سب وقف کے جواز کے قائل ہیں ۔
[نيل الأوطار: 83/4 ، حاشية ابن عابدين: 338/4]
اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی پیداوار قربت و رضائے الٰہی کے جس مصرف میں چاہے صرف کرے اور وقف کے متولی کے لیے اس سے معروف طریقے سے فائدہ اٹھانا درست ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
”اگر تم چاہو تو اصل زمین اپنی ملکیت میں باقی رکھ لو اور پیداوار صدقہ کر دو۔“
[بخاري: 2737 ، كتاب الشروط: باب الشروط فى الوقف ، مسلم: 1632]
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر صدقہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقف کرنے والا اپنی مرضی سے کہیں بھی مال وقف کر سکتا ہے بشرطیکہ جائز مصارف میں ہو اور قربت الٰہی کی غرض سے ہو ۔
واضح رہے کہ قربت الٰہی میں صرف آٹھ مصارف ہی شامل نہیں بلکہ وہ تمام مصارف شامل ہیں جہاں خرچ کرنے سے اجر و ثواب کی امید کی جا سکتی ہے مثلاً:
❀ جانوروں کے کھانے کے لیے کچھ وقف کر دینا۔
❀ مسجد کے خادم کے لیے کچھ وقف کر دینا۔
❀ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا۔
❀ باقی تمام اعمال بھی اسی پر قیاس کیے جائیں گے۔
[الروضة الندية: 337/2]
صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
ولا جناح على من وليها أن يأكل منها بالمعروف
”اور اس کا متولی و نگران اگر دستور کے مطابق اس میں سے حسب ضرورت وصول کر لے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔“
[بخاري: 2737 ، كتاب الشروط: باب الشروط فى الوقف ، مسلم: 1632]
اور وقف کرنے والا اپنے آپ کو وقف میں عام مسلمانوں کی طرح سمجھے اور جو شخص اپنے ورثاء کے لیے کوئی ضرر رساں چیز وقف کرے تو اس کا وقف باطل ہے
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من يشترى بٔر رومة فيـكـون دلوه فيها كدلاء المسلمين
”کوئی ہے جو بئر رومہ (مدینہ کا ایک مشہور کنواں) خریدے اور اپنا ڈول اس میں اسی طرح ڈالے جس طرح اور مسلمان ڈالیں ۔“
[بخارى تعليقا: قبل الحديث / 2351 ، كتاب المساقاة: باب من رأى صدقة الماء وهبته ووصيته جائزة ، نسائي: 3636 ، كتاب الإحباس: باب وقف المساجد ، صحيح نسائي: 3372 ، ترمذي: 3703]
قرآن میں اکثر و بیشتر مقامات پر ضرر رسانی سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ چند آیات حسب ذیل ہیں:
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ [الطلاق: 6]
”تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں خود رہتے ہو وہاں ان (طلاق یافتہ ) عورتوں کو رکھو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ ۔“
وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ [البقرة: 282]
”نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو ۔“
وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ [البقرة: 231]
”اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم و زیادتی کے لیے نہ روکو ، جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا ۔“
مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ [النساء: 12]
”اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جبکہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو ۔“
➎ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا ضرر ولا ضرار فى الإسلام
”اسلام میں نہ تو (کسی کو) تکلیف پہنچانا ہے اور نہ ہی پہنچائی گئی تکلیف سے زیادہ اذیت دینا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1896 ، كتاب الأحكام: باب من بنى فى حقه ما يضر بحاره ، ابن ماجة: 2340 ، 2341 ، طبراني كبير: 302/11 ، نصب الراية: 384/4]
➏ حضرت ابو صرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من ضآر أضر الله به
”جس نے (کسی کو) تکلیف پہنچائی اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے تکلیف پہنچائیں گے ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1897 ، كتاب الأحكام: باب من بنى فى حقه ما يضر بحاره ، إرواء الغليل: 896 ، ابن ماجة: 2342 ، ابو داود: 3635 ، ترمذي: 1940 ، أحمد: 15755]
جس شخص نے کوئی مال مسجد یا کسی خانقاہ میں رکھا جس سے کوئی فائدہ نہ اُٹھاتا ہو اسے حاجت مندوں اور مسلمانوں کے مفادات میں صرف کرنا جائز ہے اور اسی سے وہ اشیاء بھی ہیں جو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں رکھی جاتی ہیں
➊ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کعبہ میں حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے کہا:
لقد هممت أن لا أدع فيها صفراء ولا بيضاء إلا قسمتها بين المسلمين
”میرا ارادہ ہے کہ اس (کعبہ) میں موجود سونا اور چاندی مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دوں ۔“
یہ سن کر حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ یہ کام اس لیے نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کے دو ساتھیوں (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ) نے ایسا نہیں کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی ان دونوں کی پیروی کروں گا ۔“ (یعنی مسلمانوں کی ضروریات میں بہت زیادہ خرچ کرنا ان دونوں سے ثابت ہے لٰہذا میں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے یہی کروں گا ) ۔
[بخاري: 1594 ، 7215 ، كتاب الحج: باب كسوة الكعبة ، أحمد: 410/3]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لولا أن قومك حديثوا عهد بجاهلية أو قال بكفر لأنفقت كنز الكعبة فى سبيل الله
”اگر تیری قوم جاہلیت یا کفر سے نئی نئی اسلام میں نہ آئی ہوتی تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتا ۔“
[مسلم: 1333 ، كتاب الحج: باب نقض الكعبة وبنائها]
یہ حکم قیامت تک باقی رہے گا کہ اگر مساجد کے غیر ضروری مال کو مساجد کے علاوہ دیگر مصارف مثلاً غرباء و مساکین میں صرف کرنے سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو تو ایسا نہ کرنا ہی بہتر ہے لیکن اگر ایسا کوئی خطرہ نہ ہو تو پھر افضل یہ ہے کہ ایسے اموال جو فاضل ہیں انہیں محتاجوں اور مصلحت کے کاموں میں خرچ کر دیا جائے ، ایک جگہ پر جمع ہو کر رہ جانے سے روک دیا جائے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ جب کعبہ کے اموال کا یہ حکم ہے تو باقی مساجد کا بالا ولی یہی حکم ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1