سوال
علماے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ مسمات سعیداں کو اپنی ماں کی ملکیت سے جو حصہ ملا تھا، وہ حصہ اس (سعیداں) نے اپنی زندگی میں ہوش و حواس کی حالت میں اپنے دو ماموں کو ہبہ کردیا۔ یہ ہبہ نامہ دستاویز کی صورت میں تحریر شدہ ہے اور اس پر گواہ بھی موجود ہیں۔ لیکن اس جائیداد کا قبضہ علی خان اور جعفر (دونوں ماموں) کو ابھی تک نہیں ملا، بلکہ قبضہ دوسرے لوگوں کے پاس ہے۔ اب مسمات سعیداں کا انتقال ہوگیا ہے، اس کے ورثاء میں شامل ہیں:
◄ ایک سوتیلا بھائی
◄ ایک سوتیلی بہن
◄ ایک سوتیلی ماں
◄ دو سگے ماموں: علی خان اور جعفر
وضاحت فرمائیں کہ شریعت محمدی ﷺ کے مطابق مرحومہ سعیداں کی ملکیت کا حق دار کون ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مرحومہ کی کل ملکیت کے بارے میں سب سے پہلے درج ذیل امور پورے کیے جائیں گے:
➊ کفن دفن کا خرچ: سب سے پہلے مرحومہ کے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
➋ قرض کی ادائیگی: اگر مرحومہ پر کوئی قرض ہے تو اسے ادا کیا جائے گا۔
➌ وصیت کی تکمیل: اس کے بعد اگر میت نے کوئی وصیت کی ہو تو اسے کل مال کے ایک تہائی حصے تک پورا کیا جائے گا۔
اس کے بعد مرحومہ کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو ایک روپیہ قرار دے کر تقسیم اس طریقے سے ہوگی:
◈ 5 آنے 4 پیسے کی وصیت جو مرحومہ نے کی تھی، وہ ادا کی جائے گی۔
◈ اس کے بعد جو 10 آنے 8 پیسے باقی بچیں گے، وہ ورثاء میں تقسیم کیے جائیں گے۔
◈ ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب