وضو کا مسنون طریقہ صحیح احادیث کی روشنی

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

● وضوء کا مسنون طریقہ:

وضوء کے ابتداء میں پڑھیں۔

﴿ بسم الله . ﴾
صحیح سنن النسائي: ۱/ ۱۸ رقم: ٧٦ مسند أحمد: ٣/ ١٦٥، رقم : ١٢٦٩٤.

حمران سیدنا عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ:

’’انہوں نے سیدنا عثمان بن عفانؓ کو وضو کرتے دیکھا ۔ آپ نے اپنے ہاتھوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا پھر انہیں دھویا۔ اس کے بعد اپنا داہنا ہاتھ برتن میں ڈالا ۔ اور پانی لے کر کلی کی اور ناک صاف کیا، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور کہنیوں تک تین بار دونوں ہاتھ دھوئے۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر پانی لے کر ٹخنوں تک تین مرتبہ اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر کہا کہ رسول الثقلین ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا وضو سے کرے، پھر دو رکعت نماز پڑھے جس میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے۔ تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
صحيح بخاري، كتاب الوضوء، باب الوضوء ثلاثا ثلاثاء رقم : ١٥٩.

● سر کے مسح کا طریقہ:

سر کا مسح اس طرح کریں کہ دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصے سے گدی تک لے جائیں، پھر وہیں سے آگے کی طرف واپس لے آئیں جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم: ۱۸۶۰۱۸۵ – صحيح سنن نسائى للألباني: ۲۳/۱، رقم: ٩٦.

● کانوں کا مسح :

کانوں کے مسح کے لیے دوبارہ نئے سرے سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ، سر کا مسح کرنے کے بعد اسی پانی سے کانوں کا مسح کرلیں۔

کانوں کے مسح کا طریقہ یہ ہے کہ شہادت کی انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخوں سے گزار کر کانوں کی پشت پر انگوٹھوں کے ساتھ مسح کریں۔
صحیح مسلم سنن نسائی، کتاب الطهارة، باب مسح الأذنين مع الرأس، وما يستدل به على أنهما من الرأس، رقم: ۹۹.

● وضو سے فراغت کی دعا ئیں:

وضوء سے فراغت کے موقع پر آپ مسنون دعائیں پڑھنا مت بھولیے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص پورا وضو کرے، اور پھر یہ دعا پڑھے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور جس دروازے سے بھی چاہے وہ جنت میں داخل ہو جائے :

﴿أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله .﴾
صحيح مسلم، کتاب الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء، رقم: ٢٣٤.

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘

وضو کے بعد شہادتین کے ساتھ امام ترمذی نے اپنی سنن میں یہ دعا پڑھنی بھی روایت کیا ہے۔

﴿اللهم اجعلني من التوابين، واجعلني من المتطهرين﴾
سنن ترمذی، کتاب الطهارة، رقم: ٥٥۔ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’اے اللہ ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں سے کر دے، اور مجھے پاکیزگی اختیار کرنے والوں میں بنا۔‘‘

وضو کے بعد یہ دعا بھی پڑھ سکتے ہیں:

﴿سبحانك اللهم وبحمدك ، أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك .﴾
عمل اليوم والليلة للنسائي، رقم: ٤٢٦ – فتح الباري: ٥٤٥/١٢ – صحيح الجامع الم رقم : ٦٠٤٦ – حافظ ابن حجر اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’اے اللہ! تو اپنی تمام تر تعریفات کے ساتھ ہر عیب سے پاک ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں ، اور تیرے حضور تو بہ کرتا ہوں ۔‘‘

● وضو کی فضیلت :

❀ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

’’پاکیزگی یعنی وضو آدھا ایمان ہے ۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم : ٢٢٣۔

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے ، یقیناً رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں کہ جس کے سبب اللہ تعالیٰ گناہوں کو دُور اور درجات کو بلند کرتا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول ارشاد فرمائیں۔

❀ آپ نے فرمایا:

’’نا چاہتے وقت کامل اور سنوار کر وضو کرنا، کثرت سے مسجدوں کی طرف جانا، اور نماز کے بعد ایک نماز کا انتظار کرنا گناہوں کو دُور کرتا اور درجات کو بلند کرتا ہے ۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم: ٢٥١۔

سید نا عبد الله الصنا بحیؓ بیان کرتے ہیں ، کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جب کوئی مسلم یا مومن بندہ وضو کرتے ہوئے اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے کے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں، جو اس نے آنکھوں سے دیکھ کر کیے ہوتے ہیں ، اور جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ہاتھوں کے گناہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ گر جاتے ہیں، جو اس نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ کیے ہوتے ہیں، حتی کہ وہ گنا ہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے۔‘‘
سنن ترمذی ، ابواب الطهارة ، رقم: ۲- مسند احمد : ۳۰۳/۲۔ سنن دارمی : ۳۰۳/۲- موطا مالك، رقم : ٧٥۔ علامہ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿تبلغ الحلية من المؤمن حيث يبلغ الوضوء .﴾
صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم : ٢٥٠.

’’جنت میں مومنوں کو وہاں تک زیور پہنایا جائے گا، جہاں تک ان کے وضو کا پانی پہنچتا ہے۔‘‘

● تحیۃ الوضوء سے جنت لازم:

سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم ﷺ نے نماز فجر کے وقت سیدنا بلالؓ سے فرمایا:

’’اے بلال! میرے سامنے اپنا وہ عمل بیان کرو جو تم نے اسلام میں کیا۔ اور جس سے تجھے ثواب کی بہت زیادہ امید ہے کیونکہ میں نے جنت میں تمھارے جوتوں کی آواز سنی ہے۔‘‘

سیدنا بلالؓ نے عرض کیا:

میرے نزدیک جس عمل پر مجھے ثواب کی بہت زیادہ امید ہے، وہ یہ ہے کہ میں نے رات یا دن میں جب بھی وضو کیا تو اس وضو کے ساتھ جس قدرنفل نماز میرے مقدر میں تھی ضرور پڑھی۔
صحیح بخارى، كتاب التهجد، رقم: ١١٤٩۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابه رضى الله عنهم، رقم: ٢٤٥٨۔

تحیۃ الوضوء سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿من توضأ نحو وضوئي هذا ثم صلى ركعتين لا يحدث فيهما نفسه غفر له ما تقدم من ذنبه﴾
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم: ١٥٩۔

’’جس نے میرے اس طریقے پر وضو کیا، پھر دو رکعات پڑھیں، اس طرح کہ ان میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کی ، تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘

● وضو کے دیگر مسائل:

➊ جب وضو کریں تو ہا تھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کریں۔
سنن ترمذی، ابواب الطهارة، رقم : ٣٩- سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: ١٣٠٦.

سید نا مستورد بن شدادؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ اپنے پاؤں کی انگلیوں کا خلال ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے کر رہے تھے ۔
سنن ابو داؤد، كتاب الطهارة، رقم : ١٤٨ – الجرح والتعديل : ۳۱/۱ ۳۲۔ امام مالکؒ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔

❀ علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں :

ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال واجب ہے ۔
نيل الأوطار: ٢٤١/١۔

امیر صنعانی ، علامہ مبارکپوری اور علامہ البانیؒ کا بھی یہی موقف ہے ۔
تحفة الاحوذى -١٥٦/١ – سيل السلام : ۸۹/۱- تمام السنة، ص: ۹۳۔

➋ سید نا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر زخم پر پٹی بندھی ہو تو وضو کرتے وقت پٹی پر مسح کرلے ، اور ارد گرد کو دھولے۔
سنن الكبرى للبيهقي: ۲۲۸/۱۔ امام بیہقی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

➌ وضو کرتے ہوئے ہر عضو میں پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف دھوئیں ۔
صحيح بخاری، کتاب اللباس، رقم : ٥٨٥٤ صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم: ٦١٧۔

➍ ایک چلو میں پانی لیں ، آدھے سے کلی کریں اور آدھا ناک میں ڈالیں ۔
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم : ١٨٦ – صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم: ٥٥٥.

➎ منہ اور ناک کے لیے علیحدہ علیحدہ پانی لینا بھی جائز ہے۔
التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة: ١٤٠١.

➏ ایک چلو پانی لے کر ٹھوڑی کے نیچے سے داخل کر کے داڑھی کا خلال کریں ۔
سنن ابوداؤد، کتاب الطهارة، رقم: ١٤٥ – ا -١٤ – البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

➐ وضو میں گردن کا علیحدہ مسح کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس سے متعلق کوئی صحیح اور مرفوع روایت نہیں ہے۔ اس کے متعلق جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ موضوع ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:

گردن کے مسح کے بارے میں قطعا کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔
زاد المعاد: ١٩٥/١.

❀ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:

﴿هذا موضوع ليس من كلام النبى﴾
المجموع شرح المهذب.

’’گردن کے مسح والی روایت موضوع اور من گھڑت ہے، نبی کریم ﷺ کا روایت موضوع ! کلام نہیں ۔‘‘

مرغینائی حنفی نے لکھا ہے کہ گردن کا مسح بدعت ہے۔
هداية : ٢٠/١-٠٢١

➑ وضو کے بعد شرم گاہ کی طرف چھینٹے مارنا استحبابی عمل ہے۔
سنن نسائی، کتاب الطهارة، رقم: ۱۳۵ – سنن ابن ماجه، رقم: ٤٦١- المشكاة، رقم: ٣٦١ – البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

➒ وضو مسلسل بغیر وقفے کے ہو ۔
سنن ابو داؤد، كتاب الطهارة، رقم: ۱۷۵۔ مسند احمد: ٤٢٤/٣.

➓ اعضائے وضو، کو ایک ایک، دو دو اور تین تین مرتبہ دھونا جائز ہے۔
صحیح بخاري، كتاب الوضوء ، رقم ١٥٩،١٥٨،١٥٧.

⓫ تین سے زیادہ مرتبہ دھونا ہر گز جائز نہیں۔
سنن نسائى ، كتاب الطهارة، رقم : ١٤- سنن ابن ماجه ، رقم: ٤٢٢- سنن ابوداؤد، رقم: ١٣٥ – علامہ البانیؒ نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔

⓬ اعضائے وضو میں سے تھوڑی سی جگہ خشک رہ جائے تو وضو نہیں ہوگا۔ سیدنا عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا، اس نے وضو کیا تو پاؤں پر ناخن کے برابر جگہ خشک رہ گئی ، تو آپ ﷺ نے اسے وضو اور نماز لوٹانے کا حکم دیا۔‘‘
سنن ابن ماجه، كتاب الطهارة، رقم: ٦٦٦- صحيح سنن ابی داؤد، رقم: ١٦٥ – إرواء الغليل: ٠١٢٧/١

⓭ اعضائے وضو میں کسی جگہ کا خشک رہ جانا باعث عذاب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کی ایڑھیاں خشک دیکھیں تو فرمایا:

﴿ ويل للأعقاب من النار ﴾
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم: ١٦٥- صحيح مسلم، كتاب الطهارة، رقم: ٢٤٠۔

’’خشک ایڑھیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔‘‘

● پگڑی اور پٹی پر مسح کرنا :

سر پر پگڑی باندھی ہو تو اس پر مسح کر لیں، اس حالت میں مسح پیشانی سے شروع کریں،

❀ حدیث پاک میں ہے:

’’نبی کریم ﷺ نے وضو کیا ، تو اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح کیا ۔‘‘
صحیح مسلم، كتاب الطهارة ، رقم: ٢٧٤/٨٣۔

❀ سید نا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں:

’’اگر زخم پر پٹی بندھی ہو تو دوران وضو میں پٹی پر مسح کر لیں اور اس کے ارد گرد کو دھولیں ۔‘‘
السنن الكبرىٰ للبيهقي : ۲۲۸/۱، رقم: ۱۰۷۹۔

● موزوں اور جرابوں پر مسح کرنا:

❀ سید نا مغیرہؓ فرماتے ہیں:

﴿كنت مع النبى ﷺ فى سفر فأهويت لأنزع خفيه ، فقال: دعهما ، فإني أدخلتهما طاهرتين ” فمسح عليهما .﴾
صحیح بخاري، كتاب الوضوء ، رقم : ٢٠٦۔

’’ایک سفر میں ، میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں نے بوقت وضو چاہا کہ آپ کے دونوں موزے اُتار دوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’انہیں رہنے دو، میں نے انہیں حالت طہارت میں پہنا تھا۔ پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔‘‘

صاحب ’’غاية المقصود‘‘ رقم طراز ہیں:

’’جوربین کے بارے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے کہ وہ کھال اور چمڑا کی ہیں، یا اس سے عام یعنی اون اور روئی کی ہیں؟ صاحب قاموس نے اس کی وضاحت ’’لفافۃ الرجل‘‘ سے کی ہے۔ یہ تفسیر اپنے عموم کے پیش نظر پاؤں پر پہننے والے لفافہ پر دلالت کرتی ہے ، خواہ وہ لفافہ کھال اور چمڑے کا ہو ، یا اون اور روئی کا ۔ علامہ طیبی اور قاضی شوکانیؒ نے اسے چمڑے سے مقید کیا ہے اور شیخ عبد الحق دہلوی کے کلام کا ماحصل بھی یہی ہے۔ امام ابوبکر ابن العربی اور علامہ عینی نے تصریح کی ہے کہ وہ اون کا ہے اور شمس الائمہ الحلوانی نے اسے پانچ انواع پر تقسیم کیا ہے۔

یہ اختلاف ﴿واللہ اعلم﴾ اس لیے ہوا کہ یا تو اہل لغہ نے اس کی مختلف تفسیر کی ہے ، یا مختلف علاقوں میں جراب کی ہیئت وصورت مختلف ہوتی تھی ، بعض علاقوں میں چمڑے کی اور بعض علاقوں میں اون کی اور بعض میں تمام انواع کی، ہر کسی نے اپنے اپنے علاقوں میں پائی جانے والی جرابوں کی ہیئت کے لحاظ سے اس کی شرح کردی ہے اور بعض نے تمام علاقوں میں پائی جانے والی جرابوں کی تفسیر کر دی ، خواہ وہ جس بھی نوع سے تعلق رکھتی ہوں ۔
غاية المقصود: ٣٧،٣٦/٢٤۔

❀ صاحب قاموس کہتے ہیں:

’’ہر وہ چیز جو پاؤں پر پہنی جائے جراب ہے۔‘‘
القاموس : ٤٦/١.

صاحب ’’تاج العروس‘‘ کا کہنا ہے :

’’جو چیز لفافے کی طرح پاؤں پر پہنی جائے وہ جراب ہے۔‘‘
تاج العروس.

❀ ابن العربی مالکی لکھتے ہیں :

’’جراب‘‘ وہ چیز ہے جو پاؤں کو ڈھانپنے کے لیے اون کی بنائی جاتی ہے۔
عارضة الأحوذي.

’’عمدة الرعایة‘‘ میں مرقوم ہے کہ جرابیں روئی یعنی اون کی ہوتی ہیں اور بالوں کی بھی بنتی ہیں ۔

اب اُن احادیث کو ملاحظہ کیجیے گا جن میں واضح طور پر جرابوں پرمسح کا ذکر ہے ، تاکہ کسی کے پاس عذر باقی نہ رہے۔ چنانچہ ارزق بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انسؓ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کرتے ہوئے اپنی اون کی جرابوں پر مسح کیا۔ میں نے کہا:

آپ ان پر بھی مسح کرتے ہیں؟ تو سیدنا انسؓ نے فرمایا:

یہ بھی خفاف یعنی موزے ہیں لیکن اون کے ہیں۔
الكنى والاسماء للدولابي : ۱۸/۱ – السنن الكبرىٰ للبيهقي : ٢٨٥/١.

پس ثابت ہوا کہ ’’جراب‘‘ پاؤں پر چڑھانے والے لباس کو کہتے ہیں، وہ خواہ چمڑے کا ہو، سوتی ہو یا اونی، جیسا کہ سیدنا انسؓ نے اس کی وضاحت کر دی۔

اقوال صحابہؓ بھی تفسیر قرآن و تفہیم سنت میں حجت ہیں، کیونکہ یہ پاکیزہ ہستیاں ایک تو یہ کہ نزول قرآن اور دور و داحادیث کے حالات سے اچھی طرح باخبر اور قرآن وسنت کی اولیں مخاطب تھیں، آیات کا شان نزول اور ورود احادیث کا پس منظر اُن کے سامنے تھا۔ اس لیے یہ لوگ قرآن و سنت کے مطالب و مفاہیم سے اچھی طرح باخبر تھے۔ دوسرے یہ کہ انہیں رسول کریم ﷺ کی ناکامی کی صحبت و رفاقت کا شرف حاصل ہوا اور آپ کی شاگردی نصیب ہوئی ۔ تیسرے یہ کہ وہ اکثر عربی الاصل و النسل تھے۔ ظاہر ہے کہ نبی رحمت ﷺ کے براہ راست شاگر د قرآن وسنت فہمی کی دولت سے بقیہ اُمت کی نسبت کہیں زیادہ مالا مال تھے ۔ چنانچہ اُن کے اقوال و آثار کو بھی بجا طور پر تفسیر قرآن و تشریح حدیث و سنت کا بنیادی ماخذ تسلیم کیا گیا۔ اور در حقیقت یہی فقہ اسلامی ہے۔ اس کے اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، نہ کہ اتباع آراء الرجال کا ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ﴾

﴿البقره: ۱۳۷﴾

’’پس اگر یہ تمہاری طرح ایمان لے آئیں، تو راہ راست پر آ گئے، اور اگر انہوں نے حق سے منہ پھیر لیا، تو مخالفت وعداوت پر آ گئے ۔‘‘

❀ اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ پس میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کا التزام کرو، اور اس پر اپنی داڑھیں گاڑ لو۔ اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو، کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘
سنن ابو داؤد، كتاب السنة، رقم : ٤٦٠٧- سنن ابن ماجه ، رقم: ٤٢ – سنن ترمذی، کتاب العلم، رقم: ٢٦٧٦- سنن دارمی، مقدمه، رقم ٩٥- مستدرك حاكم: ۹۷۰۹۹/۱۔ امام حاکم اور محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘ کہا ہے۔

❀ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے:

جب ہم قرآن اور سنت میں (کسی آیت کی) تفسیر نہ پائیں ، تو اس میں ہم اقوال صحابہ کی طرف رجوع کریں گے ۔ پس بے شک وہ اس کو زیادہ سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے ان قرائن اور احوال کا مشاہدہ کیا تھا کہ جو اس کے ساتھ مختص ہیں اور اس لیے کہ اُن کا فہم تام اور علم صحیح اور عمل صالح ہے۔‘‘

پس صحابہ کرامؓ کی نسبت ، رسول اللہ ﷺ کے فرامین کو جاننے والا کون ہو سکتا ہے؟ لہٰذا جرابوں پر مسح کیا جائے گا۔

❀ حافظ عبدالستار حماد حظہ للہ لکھتے ہیں:

حضرت انس صحابی اور عربی الاصل ہیں ، وہ ’’خُف‘‘ کے معنی بیان کرتے ہیں کہ وہ صرف چمڑے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز کو شامل ہے جو قدم کو چھپا لے، آپ کی یہ وضاحت معنی کے اعتبار سے نہایت دقیق ہے کیونکہ ان کے نزد یک لفظ ’’جور بین‘‘ لغوی ، وضعی معنی کے لحاظ سے ’’خفین‘‘ کے مدلول میں داخل ہیں اور خفین پر مسح میں کوئی اختلاف نہیں ۔ لہٰذا جرابوں پر مسح میں کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ حضرت انسؓ کی یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے، ملاحظہ ہو:

مجلیٰ ابن حزم : ۸۵/۲ ۔

اس پر مستزاد فقہ حنفی میں جرابوں کے ساتھ ’’موٹے‘‘ ہونے کی قید لگائی گئی ہے، وہ قید کسی لغت میں یا پھر کس صحابی سے مروی ہے، حالانکہ ایسا قطعی نہیں ۔ تو پھر حب صحابہ کا دم بھرنے والوں کو فہم صحابہ کرامؓ سے نفرت اور چڑ کیوں کر ہے؟ کیونکہ صحابہ کا فہم تو یہ ہے کہ ’’جراب‘‘ پاؤں پر چڑھانے والے لباس کو کہتے ہیں ۔ وہ خواہ کیسا ہی ہو ، موٹا یا باریک ،
اس میں کوئی فرق نہیں ۔ فلیتدبر !

❀ اور سید نا ثوبانؓ سے مروی ہے:

﴿أمرهم أن يمسحوا على العصائب والشساخين .﴾
سنن ابو داؤد، كتاب الطهارة، رقم : ١٤٦ – شیخ البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’رسول اللہ ﷺ نے وضو کرتے وقت صحابہ کو پگڑیوں اور جرابوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔‘‘

● فائدہ:

﴿التساخين﴾ کا لفظ ’’س ، خ ، ن‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی گرم کرنے والی اشیاء ہے، جس میں جرابیں اور موزے داخل ہیں۔

سید نا ابو موسیٰ الاشعریؓ فرماتے ہیں:

’’یقیناً رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا ۔‘‘
سنن ابن ماجه ، كتاب الطهارة ، رقم : ٥٦٠- سنن ابو داؤد، رقم : ١٤٨۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

● صحابہ کرامؓ سے جرابوں پر مسح کرنے کا ثبوت:

❀ امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں:

’’علی بن ابی طالب ، ابو مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک ، ابوامامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریثؓ جرابوں پر مسح کرتے تھے اور اسی طرح کی روایات عمر بن خطاب اور ابن عباسؓ سے بھی ہیں ۔
سنن ابو داؤد، کتاب الطهارة ، تحت الحديث : ١٥٩- علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

ابن حزمؒ نے بارہ صحابہ کرامؓ سے جرابوں پر مسح کرنا ذکر کیا ہے ۔ جن میں عبداللہ بن مسعود، سعد بن ابی وقاص، عبد اللہ بن عمرو اور ابو وائلؓ بھی شامل ہیں ۔
المحلى: ٦١٣/١.

امام ابن المنذر النیسا پوریؒ نے روایت بیان کی ہے کہ عمرو بن حریثؓ نے کہا:

﴿رأيت عليا بال ثم توضأ ومسح على الجوربين .﴾
الأوسط لابن المنذر: ٤٦٢/١ – إسناده صحيح.

’’میں نے دیکھا سید نا علیؓ نے پیشاب کیا، وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا ۔‘‘

اسی طرح سہل بن سعدؓ جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبه: ۱۷۳/۱۔

ابو امامہؓ بھی جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے۔
مصنف ابن ابي شيبة : ۱۸۸/۱، رقم: ۱۹۷۹.

❀ ابن المنذر نے کہا:

اسحاق بن راہویہ نے فرمایا:

’’صحابہ کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
الأوسط لابن المنذر: ٠٤٦٥٠٤٦٤/١

تقریباً یہی بات ابن حزمؒ نے بھی کہی ہے ۔
المحلىٰ لابن حزم : ٨٦/٢، مسئله نمبر: ۰۲۱۲

علامہ ابن قدامہؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے۔
المغنى : ۳۳۲/۱، مسئله نمبر : ٤٢٦.

ائمہ کرامؒ سے جرابوں پر مسح کرنے کا ثبوت

امام ابو حنیفہؒ :

یادر ہے کہ امام ابو حنیفہؒ بھی آخر عمر میں جرابوں پر مسح کے قائل ہو گئے تھے۔ یعنی انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔ .
اللباب : ٠١٦٠/١

❀ ملا مرغینانی لکھتے ہیں:

﴿وعنه أنه رجع إلى قولها وعليه الفتوى .﴾
الهداية: ٠٦١/١

’’اور امام صاحب سے مروی ہے کہ انہوں نے صاحبین کے قول پر رجوع کرلیا تھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔‘‘

❀ امام ترمذیؒ سے مروی ہے:

صالح بن محمد ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے ابو مقاتل سمر قندی سے سنا، آپ فرماتے ہیں:

میں امام ابو حنیفہ کے پاس اس وقت گیا جب آپ مرض الموت میں تھے، چنانچہ آپ نے پانی منگوایا اور وضو کیا ، جب کہ آپ نے جرابیں پہن رکھی تھیں، جوتا نہیں پہنا تھا، لیکن آپ نے جرابوں پر مسح کیا ، پھر فرمانے لگے:

آج میں نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں کیا کرتا تھا کہ میں نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔
سنن ترمذی، ابواب الطهارة ، باب في المسح على الحوريين والتعلين، تحت حديث ، رقم: ۹۹۔ طبع مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الرياض.

امام ابو حنیفہؒ نے جب اپنے غلط موقف سے رجوع کیا ، اور جرابوں پر مسح کیا، کیا انہوں نے اپنی طرف سے کوئی خود ساختہ شرط لگائی؟ غور فرمائیں کہ پہلے امام صاحب مطلق طور عدم مسح کے قائل تھے ، اور بعد میں مطلق طور پر اسے جائز سمجھنے لگتے ہیں، مگر جب حنفی ، مالکی، شافعی یورپین ممالک اور خصوصاً امریکہ میں جرابوں پر مسح کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو عدم مسح کے قائلین اپنی طرف سے جرابوں کی ساخت کا تعین کر کے اپنے مذہب باطل کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

● امام ترمذیؒ کا قول:

اس باب میں امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:

’’جرابوں پر مسح کے جواز کے قائلین کئی اہل علم ہیں، ان میں سے سفیان ثوری، ابن مبارک ، امام شافعی ، امام احمد اور اسحاق قابل ذکر ہیں ۔ (حوالہ مذکورہ)

● ابراہیم نخعیؒ کا مسلک:

امام ابراہیم نخعیؒ (استاد امام ابوحنیفہؒ) جرابوں پر مسح کرتے تھے۔
مصنف ابن أبی شیبه: ۱۸۸/۱، رقم: ۱۹۷۷۔

● عطاء بن ابی رباحؒ کا مذہب:

عطاء بن أبي رباح استاد امام ابو حنیفہؒ وشاگرد ابن عباس و ابی ہریرہؓ) جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔
المحلى : ٨٦/٢۔

● سعید بن جبیرؒ کا مذہب:

سعید بن جبیرؒ (شاگرد ابن عباس وابی ہریرہؓ) نے جرابوں پر مسح کیا۔
مصنف ابن ابی شیبه۔

❀ امام نوویؒ کا قول :

نیز امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ ’’جب تک موزے پاؤں میں پہنے رہیں، ان پر مسح کرتے رہو ۔‘‘
محلی ابن حزم: ۱۰۲/۲۔

قاضی ابو یوسف اور امام محمدؒ کا قول:

ایسے ہی امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن حسن الشیبانی جرابوں پر مسح کے جواز کے قائل تھے۔
ہداية المجتهد ، ص: ٦٥۔

● شیخ ابن بازؒ کا فتویٰ:

سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن بازؒ فتاویٰ ابن باز (۴۶/۱) میں رقمطراز ہیں کہ موزوں اور جرابوں پر مسح جائز ہے۔

● جوتوں پر مسح کرنا:

جوتوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ چنانچہ سید نا مغیرہ بن شعبہؓ فرماتے ہیں:

’’یقیناً رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا ۔‘‘
سنن ابو داؤد، کتاب الطهارة ، رقم : ١٥٩ سنن ترمذى، كتاب الطهارة ، رقم: ۹۹- علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح‘‘ کیا ہے۔

اور سید نا ابوالا شعریؓ بیان فرماتے ہیں:

بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور جوتوں اور جرابوں پر مسح کیا ۔
سنن ابن ماجه ، كتاب الطهارة ، رقم: ٠٥٦٠٠ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

● مسح کرنے کا طریقہ:

مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں کے اوپر والے حصے پر مسح کرلیں۔ سید نا مغیر بن شعبہؓ فرماتے ہیں:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ موزوں کے اوپر ظاہر والے حصہ پر مسح کرتے تھے ۔
سنن ترمذی ، کتاب الطهارة ، رقم: ۹۸ – سنن ابوداؤد، كتاب الطهارة ، رقم : ١٦١- علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کیا ہے۔

سید نا علیؓ سے مروی ہے کہ ’’اگر دین محض انسانی رائے سے بنتا تو پھر مسح علی الخفین میں پاؤں کی نچلی جانب مسح کیا جاتا اور یہ زیادہ درست تھا کہ پاؤں کے ظاہر والے حصے پر مسح کیا جائے ۔ جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ موزوں کے اوپر ظاہر والے حصہ پر مسح کرتے ۔
الكافي لابن قدامة : ٨٠/١۔

● مسح کی مدت :

❀ سید نا علیؓ فرماتے ہیں:

﴿جعل رسول الله ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم﴾
صحيح مسلم، کتاب الطهارة، رقم: ٢٧٦۔

رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن رات مسح کی مدت مقرر کی ۔

مسح کی مدت پہلے مسح سے شمار ہوگی ۔
الكافي لابن قدامة: ٨٠/١۔

اگر جورابیں اور موزے پہن کر سفر شروع کر دیا تو مسافر والی مدت تک مسح کریں اور اگر سفر میں مسح شروع کیا ہے اور گھر آگئے ہیں تو مقیم کی مدت تک مسح کریں گے، یعنی اگر مسح کرتے ہوئے مقیم کی مدت سے او پر وقت ہو گیا ہے تو مسح نہ کریں۔

● حالت جنابت میں مسح کا حکم :

جنبی ہو نا مسح کی مدت ختم کر دیتا ہے۔ سید نا صفوان بن عسالؓ فرماتے ہیں:

﴿كان رسول الله ﷺ يأمرنا إذا كنا سفرا أن لا تنزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة ، ولكن من غائط وبول ونوم .﴾
سنن ترمذی، ابواب الطهارة، رقم : ٩٦- سنن نسائى، كتاب الطهارة، رقم: ۱۲۷- سنن ابن ماجة، رقم ٤٧٨ – إرواء الغليل، رقم : ١٠٤ – علامہ البانیؒ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم سفر میں تین دن رات تک پاخانہ، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اپنے موزے نہ اتاریں، لیکن جنبی ہونے پر اتارنے ہوں گے ۔

● نواقض وضو :

وہ امور جن سے وضوٹوٹ جاتا ہے، وہ درج ذیل ہیں:

➊ پیشاب، پاخانہ کرنا۔
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم : ٢٠٣.

➋ ہوا خارج ہونے سے۔
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم: ۱۳۷.

➌ مذی خارج ہونے سے۔
صحیح بخاری کتاب الغسل، رقم: ٢٦٩ .

➍ گہری نیند سے جو لیٹے یا ٹیک لگانے کی صورت میں ہو۔ البتہ اگر صرف بیٹھے بیٹھے اونگھا ہے تو اونگھنے سے وضو نہیں ٹوتا ۔
صحيح بخاری کتاب الوضوء رقم: ۱۹۲ سنن ابوداؤد، کتاب الطهارة، رقم: ٢٠٣.

➎ شرم گاہ کو بغیر کپڑے کے ہاتھ لگنے سے۔
سنن ابن ماجه، كتاب الطهارة، رقم : ٤٨١،٤٧٩- صحيح ابن حبان، رقم: ۱۱۱۸۔ ابن حبان اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ مزید دیکھئے صحیح ابی داؤد، رقم: ١٧٤ – ارواء الغليل، رقم: ١١٦.

➏ استحاضہ سے یعنی وہ خون جو حیض کے علاوہ کسی بیماری کی وجہ سے آتا ہے۔
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم: ۲۲۸۔

➐ اونٹ کا گوشت کھانے سے۔
صحيح مسلم، كتاب الحيض، رقم: ٣٦٠ صحیح ابو داؤد، رقم: ۱۷۷ – سنن ابن ماجه، رقم:۴۹۵،۴۹۴۔

● جن چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا :

➊ نکسیر پھوٹنے سے اور قے آنے سے۔ اور جس روایت میں قے یا نکسیر سے وضو ٹوٹنے کا بیان ہے۔ اسے امام احمد اور دیگر محدثین نے ضعیف کہا ہے ۔ محدث البانی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
سنن ابن ماجه، كتاب الطهارة، رقم: ۱۲۲۱ـ التلعيق على سبل السلام.

➋ شرمگاہ کے علاوہ باقی جسم کے حصے سے خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ جب سید نا عمرؓ زخمی کیے گئے تو آپ اسی حالت میں نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کے جسم سے خون جاری تھا۔
مؤطا مالك، كتاب الطهارة، باب العمل فيمن عليه الدم من حرج أو رعاف : ١/ ٣٩ – السنن الكبرىٰ للبيهقي: ٣٥٧/١.

➌ معمولی نیند یعنی اونگھ سے جس سے حواس بالکل ختم نہیں ہوتے ، مثلا کھڑے یا بیٹھے نیند آجانا۔
صحیح بخاری، کتاب مواقيت الصلاة، رقم: ٠٥٦٦

➍ قہقہہ لگانے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔ جس روایت میں قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کا ذکر ہے اسے امام دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
السنن الدار قطني : ۳۷۹/۱، طبع دار المعرفة بيروت.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء