مسواک کی فضیلت:
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
السواك مطهرة للفم مرضاة للرب
”مسواک منہ کی صفائی اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا سبب ہے۔“
(نسائی، کتاب الطهارة، باب الترغيب في السواك : 5صحیح)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لولا أن أشق علىٰ أمتي لأمرتهم بالسواك مع كل صلاة
”اگر میں اپنی امت پر مشقت محسوس نہ کرتا تو میں انھیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔“
(بخاری، کتاب الجمعة، باب السواك يوم الجمعة : 887۔ مسلم : 252)
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب السواك : 253/44)
❀ روزے کی حالت میں بھی مسواک کی جا سکتی ہے، کیونکہ مندرجہ بالا دونوں احادیث روزے اور افطار دونوں حالتوں کے لیے عام ہیں اور کسی حدیث میں روزے کی حالت میں مسواک کرنے سے منع بھی نہیں کیا گیا ہے۔
❀ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو مسواک کرتے تھے۔
(بخاری، کتاب الوضوء، باب السواك : 245۔ مسلم : 255)
❀ مسواک زبان، اس کے ارد گرد اور گلے تک کرنی چاہیے۔
(بخاری، کتاب الوضوء، باب السواك : 244۔ مسلم : 254)
❀ مسواک کا لمبا یا چھوٹا ہونا، کوئی شرط نہیں۔
وضو کی اہمیت و فضیلت:
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الطهور شطر الإيمان
”پاکیزگی ایمان کا نصف حصہ ہے۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب فضل الوضوء : 223)
اور فرمایا:
لا تقبل صلاة بغير طهور
”وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة : 224)
❀ وضو وہی صحیح ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہوگا، اس کے علاوہ صحیح نہیں ہوگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أتم الوضوء كما أمر الله تعالىٰ، فالصلوات المكتوبات كفارات لما بينهن
”جس نے اللہ کے حکم کے مطابق مکمل وضو کیا، تو اس کی فرض نمازیں کفارہ ہوں گی ان گناہوں کا جو ان کے بیچ میں کرے۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب فضل الوضوء والصلاة عقبه)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من توضأ نحو وضوئي هذا ثم صلىٰ ركعتين لا يحدث فيهما نفسه غفر له ما تقدم من ذنبه
”جس نے میرے اس طریقے پر وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں، اس طرح کہ ان میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کی، تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا : 159)
وضو کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من توضأ فأحسن الوضوء، خرجت خطاياه من جسده
”جو شخص اچھے طریقے سے وضو کرے، اس کے جسم سے گناہ نکل جاتے ہیں۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء : 245)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أمتي يدعون يوم القيامة غرا محجلين من آثار الوضوء
”قیامت کے دن میری امت کو جب بلایا جائے گا تو وہ اس حال میں آئیں گے کہ ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں سفید چمکتے ہوں گے، وضو کے نشانات کی وجہ سے۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب فضل الوضوء الخ : 136۔ مسلم : 246/35)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
تبلغ الحلية من المؤمن حيث يبلغ الوضوء
”(جنت میں) مومنوں کو وہاں تک زیور پہنایا جائے گا، جہاں تک ان کے وضو کا پانی پہنچتا ہے۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب تبلغ الحلية حيث يبلغ الوضوء : 250)
وضو شروع کرنے سے پہلے:
❀ وضو سے پہلے طہارت کی نیت کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما الأعمال بالنيات
”ہر کام کا مدار نیت پر ہے۔“
(بخاری، کتاب بدء الوحي، باب كيف كان بدء الوحى إلى رسول الله الخ : 1۔ مسلم : 1907)
وضو کی نیت زبان سے کرنا بدعت ہے، کیونکہ یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
❀ نیند سے جاگنے والا آدمی پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے انھیں دھوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
إذا استيقظ أحدكم من نومه فليغسل يده قبل أن يدخلها فى وضوئه فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده
”جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے جاگے تو وہ پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے انھیں دھوئے، کیونکہ اسے علم نہیں کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب الاستجمار وترا : 162۔ مسلم : 278)
❀ اگر ہاتھ وغیرہ پر پینٹ لگا ہو، جس سے پانی جلد تک نہ پہنچے، تو اسے وضو سے پہلے اتارنا فرض ہے، کیونکہ اگر جلد تک پانی نہ پہنچے تو وضو نہیں ہوتا۔
❀ اسی طرح نیل پالش بھی پانی کو جلد تک پہنچنے سے روکتی ہے، اسے بھی وضو سے پہلے اتارنا فرض ہے۔
وضو کا مسنون طریقہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
توضؤوا بسم الله
”بسم اللہ پڑھ کر وضو کریں۔“
(نسائی، کتاب الطهارة، باب التسمية عند الوضوء : 78۔ صحیح مسند أحمد : 165/3، ح : 12724)
مزید فرمایا: ”بسم اللہ پڑھے بغیر وضو نہیں ہوگا۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب في التسمية على الوضوء : 101۔ ترمذی : 25۔ ابن ماجه : 397۔ صحیح)
❀ وضو کرتے ہوئے ہر عضو میں پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف دھوئیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يحب التيمن فى طهوره
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو طہارت میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند تھا۔“
(بخاری، کتاب اللباس، باب يبدأ بالنعل اليمني : 5854۔ مسلم : 268/67)
❀ دونوں ہاتھ کلائیوں تک دھوئیں۔
(بخاري، كتاب الوضوء، باب غسل الرجلين إلى الكعبين : 186. مسلم : 235)
❀ ہاتھ اور پاؤں دھوتے وقت پوروں کو اچھی طرح مل کر دھونا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں۔“ اور انگلیوں کے پوروں کو دھونا ان میں سے ایک ہے۔ (مسلم، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة : 261. أبو داود : 53)
❀ ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کریں۔ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب في الاستنثار : 142۔ ترمذی : 38۔ نسائی : 114۔ صحیح)
❀ ایک چلو میں پانی لیں، آدھے سے کلی کریں اور آدھا ناک میں ڈالیں۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب غسل الرجلين إلى الكعبين : 186۔ مسلم : 555)
❀ منہ اور ناک کے لیے علیحدہ علیحدہ پانی لینا بھی جائز ہے۔ (التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة : 1410۔ حسن)
❀ ناک میں پانی ڈالتے ہوئے مبالغہ کریں یعنی اوپر تک پانی چڑھائیں۔ اگر روزہ ہو تو پھر مبالغہ نہ کریں۔ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب في الاستنثار : 142۔ نسائی : 87۔ ابن ماجه : 407۔ صحیح)
❀ نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب وضو کیا جائے تو پانی چڑھا کر تین بار ناک جھاڑنا چاہیے، کیونکہ شیطان ناک کے بانے میں رات گزارتا ہے اور اس کے علاوہ ایک یا دو بار بھی جائز ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس و جنوده : 3295۔ مسلم : 238)
❀ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا وضو میں سنت جبکہ غسل میں فرض ہے، لہذا غسل میں مبالغہ کرنا چاہیے، وضو میں نہیں، یہ بات مندرجہ بالا حدیث کے خلاف ہے۔ اس میں مبالغہ کرنے کا حکم غسل اور وضو دونوں کے لیے عام ہے۔
❀ ناک کو بائیں ہاتھ سے تین مرتبہ جھاڑیں اور صاف کریں۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب غسل الرجلين إلى الكعبين : 186۔ مسلم : 235)
❀ پھر تین مرتبہ چہرہ دھوئیں۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب مسح الرأس كله : 185۔ مسلم : 235)
❀ ایک چلو پانی لے کر ٹھوڑی کے نیچے داڑھی میں داخل کریں اور خلال کریں۔ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب تخليل اللحية : 145۔ ترمذی : 31۔ ابن ماجه : 432۔ إسناده حسن)
❀ پھر دایاں ہاتھ کہنی سمیت دھوئیں، پھر بایاں ہاتھ کہنی سمیت دھوئیں۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب غسل الرجلين إلى الكعبين : 186۔ مسلم : 235)
❀ پھر سر کا مسح کریں، اس طرح کہ دونوں ہاتھ پانی سے تر کر کے سر کے اگلے حصے پر رکھیں اور گدی تک لے جائیں، پھر پیچھے سے آگے اسی جگہ لے آئیں جہاں سے شروع کیا تھا اور یہ ایک مرتبہ کریں۔ (بخاری، کتاب الطهارة، باب مسح الرأس كله : 185، 186۔ مسلم : 235)
❀ سر کا مسح تین دفعہ کرنا بھی جائز ہے۔ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب صفة وضوء النبي : 107، 110۔ صحیح)
❀ صحیح مسلم (236) میں سر کے مسح کے لیے الگ پانی لینے کا ذکر ہے اور ابو داود کی جس روایت میں بچے ہوئے پانی سے مسح کرنے کا ذکر ہے اسے شیخ زبیر علی زئی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (أبو داود : 130۔ طبع دار السلام)
❀ اپنی شہادت کی انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخوں میں ڈال کر کانوں میں بنے ہوئے راستوں میں گھمائیں، جب آخر تک پہنچ جائیں تو کانوں کی پشت پر انگوٹھوں کے ساتھ مسح کر لیں۔ (نسائی، کتاب الطهارة، باب مسح الأذنين مع الرأس الخ : 102۔ ابن ماجه : 439۔ ترمذی : 36۔ صحیح)
❀ سر کے مسح کے لیے لیے گئے پانی سے کانوں کا مسح کرنا درست ہے، کیونکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”کان سر کا حصہ ہیں۔“ (سنن الدار قطنی : 98/1، ح : 327۔ السلسلة الصحيحة : 36)
تاہم کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ جو پانی سر کے مسح کے لیے لیتے تھے، کانوں کے مسح کے لیے اس سے الگ لیتے تھے۔
(السنن الكبرى للبيهقي : 107/1، ح : 308۔ إسناده صحیح۔ بعض علماء کے نزدیک یہ حدیث شاذ ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ صحیح ہے)
بعض لوگ مکمل سر کا مسح نہیں کرتے، آدھے یا چوتھائی سر کا مسح کرتے ہیں، یہ غلط ہے، کیونکہ قرآن میں مکمل سر کے مسح کا حکم ہے اور سنت سے بھی پورے سر کا مسح ثابت ہے۔
❀ وضو میں گردن کا مسح کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کے متعلق روایات موضوع ہیں۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”گردن کے مسح کے بارے میں قطعاً کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔“ (زاد المعاد : 195/1)
❀ پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئیں۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب غسل الرجلين إلى الكعبين : 186۔ مسلم : 235)
❀ بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کریں۔ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب غسل الرجل : 148۔ ترمذی : 40۔ صحیح)
وضو کے بعد شرم گاہ کی طرف چھینٹے مارنے چاہییں (اس سے پیشاب کے قطرے نکلنے کا وسوسہ ختم ہو جاتا ہے)۔ حکم بن سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ فنضح فرجه
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنی شرم گاہ پر چھینٹے مارے۔“
(نسائی، کتاب الطهارة، باب النضح : 135۔ ابن ماجه : 461۔ صحیح۔ مصنف ابن أبي شيبة : 167/1)
وضو کے بعد آسمان کی طرف انگلی اٹھانا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ابو داود (170) کی ایک روایت میں نظر آسمان کی طرف اٹھانے کا ذکر ہے، لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔
وضو کے اذکار
❀ بعض لوگ وضو کے دوران ہر عضو دھوتے ہوئے دعا پڑھتے ہیں، یہ بدعت ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ہر عضو کے لیے مخصوص اذکار کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں ہے۔“ (الأذكار، باب ما يقول على وضوء : 74/1، جلد 5)
❀ وضو کے دوران دعائیں پڑھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
جو شخص اچھا وضو کرے اور پھر مندرجہ ذیل دعا پڑھے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جس سے چاہے داخل ہو:
أشهد أن لا إلٰه إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله
”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء : 234)
وضو کے بعد یہ دعا پڑھنا بھی ثابت ہے:
«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ»
”اے اللہ! تو اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں۔“
(السنن الكبرى للنسائي : 9909۔ صحيح الجامع : 6046)
❀ بعض لوگ وضو کے بعد سورۃ القدر کی تلاوت کرتے ہیں، اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ (احادیث ضعیفہ کا مجموعہ : 167)
وضو سے متعلقہ دیگر مسائل:
❀ وضو کے تمام اعضا کو ایک ایک، دو دو اور تین تین مرتبہ دھونا جائز ہے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء مرة مرة : 157، 158، 159)
❀ اعضائے وضو میں سے کسی عضو کو ایک بار، کسی کو دو بار اور کسی کو تین مرتبہ دھونا بھی جائز ہے۔ (مسلم، کتاب الطهارة، باب آخر في صفة الوضوء : 235)
❀تین سے زیادہ مرتبہ دھونا ہرگز جائز نہیں۔ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کر کے دکھایا، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین مرتبہ اعضا دھوئے، پھر فرمایا:
هٰكذا الوضوء، فمن زاد علىٰ هٰذا فقد أساء وتعدىٰ وظلم
”یہ وضو کا صحیح طریقہ ہے، پس جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے برا کیا، حد سے تجاوز کیا اور ظلم کیا۔“
(نسائی، کتاب الطهارة، باب الاعتداء في الوضوء : 140۔ ابن ماجه : 422۔ أبو داود : 135۔ صحیح)
❀ہر عضو کو مل کر دھونا چاہیے، تاکہ اچھی طرح صفائی ہو جائے محض پانی بہا لینے سے صفائی نہیں ہو سکتی۔
❀تمام اعضا ترتیب سے دھونے چاہییں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ترتیب سے وضو کرتے تھے، کبھی ترتیب کے خلاف وضو کرنا ثابت نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ابو جبیر الکندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم دیا، اس نے چہرہ دھونے سے ابتدا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے چہرے سے وضو شروع نہ کرو، کیونکہ یہ طریقہ کافروں کا ہے۔“ (ابن حبان : 1089۔ إسناده حسن)
اعضائے وضو میں سے کوئی جگہ خشک رہ جائے:
اعضائے وضو میں سے کسی جگہ کا خشک رہ جانا باعث عذاب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کی ایڑھیاں خشک دیکھ کر فرمایا:
ويل للأعقاب من النار
”(خشک) ایڑھیوں کے لیے آگ سے عذاب ہوگا۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب غسل الأعقاب : 165۔ مسلم : 240)
❀ اگر اعضائے وضو میں سے ناخن کے برابر بھی جگہ خشک رہ گئی تو وضو نہیں ہوگا۔
❀ جگہ خشک رہنے کا علم نماز میں یا اس کے بعد ہوا تو وضو اور نماز دونوں کو دہرانا پڑے گا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، اس نے وضو کیا تو پاؤں پر ناخن کے برابر جگہ خشک رہ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو اور نماز لوٹانے کا حکم دیا۔“
(ابن ماجہ، کتاب الطهارة، باب من توضأ فترك موضعا لم يصيبه الماء : 666۔ أبو داود : 175۔ صحیح)
اس لیے ہاتھوں وغیرہ پر پینٹ، نیل پالش یا ایسی کوئی چیز لگی ہو جو پانی کو جسم تک پہنچنے سے روکتی ہو تو پہلے اسے اتار دیں اور اگر ہاتھ میں انگوٹھی یا چوڑیاں پہنی ہوں تو انھیں اچھی طرح ہلائیں، تاکہ ان کے نیچے تک پانی پہنچ جائے۔
پگڑی اور پٹی پر مسح کا بیان:
❀ سر پر پگڑی باندھی ہے تو اس پر مسح کر لیں، لیکن اس حالت میں مسح پیشانی سے شروع کریں، کیونکہ حدیث میں ہے: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، تو اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح کیا۔“ (مسلم، کتاب الطهارة، باب المسح على الناصية والعمامة : 274/83)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ”اگر زخم پر پٹی بندھی ہو تو دوران وضو پٹی پر مسح کر لیں اور ارد گرد کو دھو لیں۔“ (السنن الكبرى للبيهقي : 228/1، ح : 1079۔ صحیح)
موزوں اور جرابوں پر مسح کا بیان:
❀ اگر موزے بحالت طہارت پہنے ہوں، تو ان پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاشبہ موزوں پر مسح کیا۔“ (بخاری، کتاب الوضوء، باب الرجل يوضى صاحبه : 182۔ مسلم : 274)
صاحب غایۃ المقصود نے لکھا ہے کہ جوربین کے بارے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے کہ وہ کھال اور چمڑا کی ہیں، یا اس سے عام، یعنی اون اور روئی کی ہیں؟ صاحب قاموس نے اس کی وضاحت ”لفافة الرجل“ سے کی ہے، یہ تفسیر اپنے عموم کے پیش نظر پاؤں پر پہننے والے لفافہ پر دلالت کرتی ہے، خواہ وہ لفافہ کھال اور چمڑے کا ہو، یا اون اور روئی کا۔ علامہ طیبی اور قاضی شوکانی نے اسے چمڑے سے مقید کیا ہے اور شیخ عبد الحق دہلوی کے کلام کا ماحصل بھی یہی ہے۔ امام ابو بکر ابن العربی اور علامہ عینی نے تصریح کی ہے کہ وہ اون کا ہے اور شمس الائمہ الحلوانی نے اسے پانچ انواع پر تقسیم کیا ہے۔
یہ اختلاف (واللہ اعلم) اس لیے ہوا ہے کہ یا تو اہل لغہ نے اس کی مختلف تفسیر کی ہے، یا مختلف علاقوں میں جراب کی ہیئت و صورت مختلف ہوتی تھی، بعض علاقوں میں چمڑے کی اور بعض میں اون کی اور بعض میں تمام انواع کی، ہر کسی نے اپنے اپنے علاقے میں پائی جانے والی جرابوں کی ہیئت کے لحاظ سے اس کی شرح کر دی ہے اور بعض نے تمام علاقوں میں پائی جانے والی جرابوں کی تفسیر کر دی، خواہ وہ جس بھی نوع سے تعلق رکھتی ہو۔ (غاية المقصود : 36/2، 370)
پس ثابت ہوا کہ جورب پاؤں پر چڑھانے والے لباس کو کہتے ہیں، وہ خواہ چمڑے کا ہو، سوت کا ہو، یا اون کا، لہذا ان سب پر مسح ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسح صرف چمڑے کے موزوں پر جائز ہے اور اون، کپڑے وغیرہ کی جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں۔ یہ مسئلہ خود ساختہ اور صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ اب میں وہ احادیث تحریر کرتا ہوں جن میں واضح طور پر جرابوں کا ذکر ہے، تاکہ کسی کے پاس عذر باقی نہ رہے۔
❀ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے انھیں پگڑیوں اور جرابوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔“ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب المسح على العمامة : 146۔ صحیح)
❀ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔“ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب المسح على الجوربين : 159۔ ترمذی : 99۔ صحیح)
❀ سیدنا ابو موسیٰ الأشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔“ (ابن ماجه، کتاب الطهارة، باب ما جاء في المسح على الجوربين والنعلين : 560۔ صحیح)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جرابوں پر مسح کرنے کا ثبوت:
امام ابو داود سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بعد فرماتے ہیں: ”علی بن ابی طالب، ابن مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک، ابو امامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم بھی ان دونوں جرابوں پر مسح کرتے تھے اور اسی طرح کی روایات عمر بن خطاب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی ہیں۔“ (شرح فقہ تحت الحديث : 159)
ان کے علاوہ ابو مسعود الأنصاری، عقبہ بن عمر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم سے بھی (مصنف ابن ابی شیبہ : 613/1) عبد اللہ بن عمرو اور ابو وائل رضی اللہ عنہم سے بھی جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔
جرابوں پر مسح کرنے کا طریقہ:
مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں کے اوپر والے حصے پر مسح کر لیں۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ موزوں کے اوپر ظاہر والے حصے پر مسح کرتے تھے۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب كيف المسح : 161۔ ترمذی : 98۔ صحیح)
جرابوں اور جوتوں پر مسح کرنا:
جرابوں اور جوتوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب المسح على الجوربين : 159۔ ترمذی : 99۔ ابن ماجه : 559، 560، عن أبي موسى الأشعري۔ صحیح)
❀ اور ایک حدیث میں ہے: ”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جوتوں اور پاؤں پر مسح کیا۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب : 160)
مسح کی مدت:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات مسح کی مدت مقرر کی۔“
(مسلم، کتاب الطهارة، باب التوقيت في المسح على الخفين : 276)
❀ یعنی اس کے بعد جرابیں وغیرہ اتار کر پاؤں دھونا پڑیں گے۔ مسح کی مدت پہلے مسح سے شمار ہو گی۔ (الكافي لإمام ابن قدامة رحمہ اللہ : 80/1)
❀ وضو کی حالت میں موزہ اتار دیا تو طہارت ختم نہیں ہوگی، جب تک وضو نہ ٹوٹے گا، یعنی وضو ٹوٹنے سے پہلے جرابیں دوبارہ پہن لیں تو ان پر مسح جائز ہے۔ بغیر وضو کی حالت میں موزہ اتارا، یا وضو کی حالت میں اتارا تھا لیکن اسی حالت میں وضو ٹوٹ گیا اور موزے یا جرابیں دوبارہ پہن لیں تو ان پر مسح جائز نہیں۔
❀ اگر موزے پہن کر سفر شروع کر دیا تو مسافر والی مدت تک مسح کریں اور اگر سفر میں مسح شروع کیا ہے اور گھر آ گئے ہیں تو مقیم کی مدت تک مسح کریں گے، یعنی اگر مسح کرتے ہوئے مقیم کی مدت سے اوپر وقت ہو گیا ہے تو مسح نہ کریں۔
حالت جنابت میں مسح کا حکم:
❀ غسل فرض ہو جائے تو مسح کی مدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرنا إذا كنا سفرا أن لا ننزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة، ولٰكن من غائط وبول ونوم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم سفر میں تین دن رات تک پاخانہ، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اپنے موزے نہ اتاریں لیکن جنبی ہونے پر اتارنے ہوں گے۔“
(ترمذی، کتاب الطهارة، باب مسح على الخفين للمسافر والمقيم : 96۔ نسائی : 127۔ ابن ماجه : 478۔ حسن)
وضو پر وضو کرنا:
❀ ہر نماز کے لیے الگ وضو کرنا ضروری نہیں، بلکہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ”اے اللہ کے رسول! آج آپ نے وہ کام کیا جو پہلے نہیں کرتے تھے۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! یہ میں نے جان بوجھ کر کیا ہے۔“ (مسلم، کتاب الطهارة، باب جواز الصلوات كلها بوضوء واحد : 277)
اگر وضو باقی ہو تو دوبارہ وضو بھی کیا جا سکتا ہے، بلکہ افضل ہے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يتوضأ عند كل صلاة، قلت كيف كنتم تصنعون؟ قال يجزئ أحدنا الوضوء ما لم يحدث
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔“ (راوی حدیث کہتے ہیں) میں نے عرض کیا: ”آپ کیسے کرتے تھے؟“ تو انھوں نے فرمایا: ”ہمارے کسی شخص کے لیے ایک وضو اس وقت تک کے لیے کافی ہے جب تک وہ ٹوٹ نہ جائے۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء من غير حدث : 214)
فقہ حنفی دیوبندیوں کی معتبر کتاب ”بہشتی زیور“ میں لکھا ہے کہ اگر وضو باقی ہے تو دوبارہ وضو کرنا مکروہ ہے، لیکن یہ بالکل غلط اور بے اصل ہے۔
پانی کے استعمال میں اسراف:
❀ طہارت میں پانی بقدر ضرورت استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ اسراف گناہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور اسراف نہ کرو، کیونکہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“
(6-الأنعام:141)
❀ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد (ایک مک) پانی سے وضو کر لیا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء بالمد : 201۔ مسلم : 737)
وضو کے بعد ناجائز کام:
❀ وضو کے بعد مسجد کی طرف جاتے ہوئے تشبیک، یعنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا توضأ أحدكم فأحسن وضوءه ثم خرج عامدا إلى المسجد فلا يشبكن يديه فإنه فى صلاة
”جب کوئی شخص وضو کرے تو اچھا وضو کرے، پھر جب وہ مسجد کی طرف جائے تو ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں نہ ڈالے، کیونکہ وہ نماز میں ہوتا ہے۔“
(أبو داود، کتاب الصلاة، باب ما جاء في الهدي في المشي إلى الصلاة : 562۔ صحیح)
وضو کے بعد دو رکعات کی فضیلت:
❀ وضو کے بعد دو رکعتیں ادا کرنا اجر عظیم کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من توضأ نحو وضوئي هٰذا ثم صلىٰ ركعتين لا يحدث فيهما نفسه غفر له ما تقدم من ذنبه
”جس نے میرے اس طریقے پر وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں، اس طرح کہ ان میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کی، تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“
(بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا : 159۔ مسلم : 226)
وضو توڑنے والی چیزیں:
نو چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
➊ پیشاب و پاخانہ سے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب المسح على الخفين : 203)
➋ ہوا خارج ہونے سے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب لا يتوضأ من الشك حتى يستيقن : 137)
➌ منی نکلنے سے اور اس سے پہلے استنجا بھی کرنا چاہیے۔ (بخاری، کتاب الغسل، باب غسل المذي والوضوء منه : 269)
➍ استحاضہ سے (یعنی وہ خون جو حیض کے علاوہ کسی بیماری کی وجہ سے آتا ہے)۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب غسل الدم : 228)
➎ شرم گاہ کو بغیر کپڑے کے ہاتھ لگنے سے۔ (ابن ماجه، کتاب الطهارة، باب الوضوء من مس الذكر : 479، 481۔ صحیح ابن حبان : 1118)
بعض مرد و خواتین کپڑے تبدیل کرتے ہوئے خیال نہیں کرتے اور ان کا ہاتھ شرمگاہ کو لگ جاتا ہے اور بعد میں وہ وضو نہیں کرتے، اسی طرح بعض خواتین بچے یا بچی کو صاف کرتی ہیں لیکن وضو نہیں کرتیں، جبکہ ان کا ہاتھ بچے یا بچی کی شرمگاہ پر لگتا ہے، انھیں وضو کرنا چاہیے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ برہنہ ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
➏ گہری نیند سے جو لیٹنے یا ٹیک لگانے کی صورت میں ہو۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب الاستجمار : 162۔ أبو داود : 203)
➐پاگل یا غم اور نشہ وغیرہ سے بے ہوش ہونے سے، کیونکہ بے ہوشی نیند سے زیادہ بے حس کرتی ہے۔
➑ مرتد ہونے سے یعنی دین اسلام سے خارج ہونے سے، کیونکہ اس کے تمام اسلامی عمل ختم ہو جاتے ہیں۔ (الزمر : 65)
➒ جناب سفیان ثوری رحمہ اللہ المتوفی (161ھ) فرماتے ہیں:
”جب کوئی شخص دین اسلام سے پھر جائے تو اس کا کفر پہلی تمام اسلامی عبادات کو ختم کر دیتا ہے۔“
(مصنف ابن ابی شیبة : 431/3، ح : 15838۔ إسناده صحیح)
جن چیزوں سے غسل فرض ہوتا ہے یعنی جماع، احتلام، حیض اور نفاس ان سے وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
❀ اونٹ کا گوشت کھانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے کا حکم دیا ہے، لہذا وضو کرنا ضروری ہے۔ (مسلم، کتاب الحيض، باب الوضوء من لحوم الإبل : 360)
❀ مندرجہ ذیل صورتوں میں وضو کر لیا جائے تو بہتر ہے، ضروری نہیں:
➊ اونٹ کے علاوہ کسی کا گوشت کھانے سے۔ (مسلم، کتاب الحيض، باب الوضوء من لحوم الإبل : 360۔ السلسلة الصحيحة : 2322)
➋ قے آنے سے۔ (ترمذی، کتاب الطهارة، باب ما جاء في الوضوء من القيء والرعاف : 87۔ صحیح)
➌ کسی میت کو غسل دینے سے۔ (أبو داود، کتاب الجنائز، باب في الغسل من غسل الميت : 3161۔ ترمذی : 993۔ صحیح)
❀ مندرجہ ذیل صورتوں میں محض کلی کر لی جائے:
➊ آگ سے پکا ہوا کھانا کھانے سے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء من غير حدث : 215)
➋ دودھ اور چکنائی والی چیز پینے سے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب هل يمضمض من اللبن؟ : 211)
جن چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا:
➊ نکسیر پھوٹنے سے۔
➋قے آنے سے، کیونکہ جس روایت میں قے یا نکسیر سے وضو ٹوٹنے کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے۔ (بلوغ المرام، باب نواقض الوضوء : 68)
➌ معمولی نیند جس سے حواس بالکل ختم نہیں ہوتے، مثلاً کھڑے یا بیٹھے نیند آنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (بخاری، کتاب مواقيت الصلاة، باب فضل العشاء : 566)
➍ نماز میں محض شک پڑنے سے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب لا يتوضأ من الشك حتى يستيقن : 137۔ مسلم : 361، 362)
➎ شرمگاہ کے علاوہ باقی جسم کے کسی حصے سے خون اور پیپ وغیرہ بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب الوضوء من الدم : 198۔ اس روایت کو امام ابن خزیمہ، ابن حبان، امام حاکم اور علامہ ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے ابن خزیمہ : 24/1، 25، ح : 36۔ ابن حبان : 1096۔ مستدرك حاكم : 156/1، 157، ح : 557)
دیوبندیوں کی کتاب ”فضائل اعمال“ (ص 67) میں لکھا ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اس مسئلہ سے متعلق کوئی صحیح روایت نہیں ہے، بلکہ یہ مندرجہ بالا صحیح روایت کے بھی خلاف ہے۔
دوران نماز میں وضو ٹوٹنے کا مسئلہ:
❀ دوران نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو وضو کر کے نئے سرے سے نماز پڑھنی چاہیے۔ (مسلم : 224، 225)
کیونکہ وضو نماز کے لیے شرط ہے، جب شرط ختم ہو گئی تو مشروط بھی باطل ہو گیا۔