سوال :
وضو کے بعد یا وضو میں پاوں دھوتے وقت سورۃ القدر پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب :
بدعت ہے، اس حوالے سے یہ غیر معتبر روایت بھی وارد ہوئی ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قَرَأَ فِي إِثْرِ وُضُوئِہ : ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ ، مَرَّةً وَّاحِدَةً، كَانَ مِنَ الصِّدِّيقِينَ، وَمَنْ قَرَأَهَا مَرَّتَيْنِ، كُتِبَ فِي دِيوَانِ الشُّهَدَاءِ، وَمَنْ قَرَأَهَا ثَلَاثًا، حَشَرَهُ اللهُ مَحْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ .
”جو شخص وضو کرنے کے بعد ایک دفعہ سورۃ القدر کی تلاوت کرتا ہے، صدیقین میں شمار کیا جاتا ہے، جو اسے دو مرتبہ پڑھتا ہے، اس کا نام شہداء کے رجسٹر میں لکھ دیا جاتا ہے اور جو اسے تین مرتبہ پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے انبیائے کرام کے ساتھ حشر میں جمع فرمائے گا۔ “
[ مسند الديلمي، نقلًا عن الحاوي للفتاوي للسيوطي : 339/1 ]
◈ علامہ سیوطی (م : 911ھ) اس کے ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں :
وَأَبُو عُبَيْدَةَ مَجْهُولٌ .
”ابوعبیدہ نامی شخص مجہول ہے۔ “ [أيضًا ]
◈ ابن حجر ہیتمی (909-974ھ) نے بھی لکھا ہے :
وفي سنده مجهول .
”اس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔ “ [الفتاوٰي الفقهيّة الكبرٰي : 59/1 ]
اس کی سند میں امام حسن بصری رحمہ اللہ کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔ نیز ابوعبیدہ سے نیچے سند بھی مذکور نہیں۔
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ (831-902ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
وكذا قرائة سورة ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ﴾ عقب الوضوء، لا اصل له
”اسی طرح وضو کے بعد سورۂ قدر کی تلاوت بے اصل( بدعت) ہے۔ “ [ المقاصد الحسنة، ص : 664 ]