سوال:
وضو میں پاؤں دھونے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
وضو میں پاؤں دھونا فرض ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پاؤں دھوتے تھے۔ بغیر موزوں کے پاؤں پر مسح نہیں کیا۔
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
(سورة المائدة: 6)
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو، تو اپنے چہرے اور کہنیوں سمیت ہاتھ دھو، سر کا مسح کرو اور ٹخنوں سمیت پاؤں دھو۔
قرآن کریم کی اس آیت کریمہ میں پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ ثابت ہوا کہ وضو میں پاؤں دھونا فرض ہے۔ اس آیت کی صحیح تفسیر یہی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے معتبر مفسر قرآن ہیں اور جو وحی الہی کی روشنی میں قرآنی آیات کی تفسیر اپنے قول، فعل اور تقریر سے فرماتے ہیں، انہوں نے وضو میں ننگے پاؤں دھونے کی تعلیم دی ہے، ان پر مسح کی نہیں۔
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن النبى صلى الله عليه وسلم رأى رجلا، لم يغسل عقبيه، فقال: ويل للأعقاب من النار
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص دیکھا، جس نے ایڑیاں نہیں دھوئی تھیں، تو فرمایا: خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ویل نامی وادی ہے۔
(صحیح البخاری: 165، صحیح مسلم: 242)
❀ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں:
ويل للعراقيب من النار
خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ویل نامی وادی ہے۔
❀ علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ (587ھ) فرماتے ہیں:
دل أن غسل الرجلين من فرائض الوضوء وقد ثبت بالتواتر أن النبى صلى الله عليه وسلم غسل رجليه فى الوضوء، لا يجحده مسلم، فكان قوله، وفعله بيان المراد بالآية، فثبت بالدلائل المتصلة، والمنفصلة أن الأرجل فى الآية معطوفة على المغسول لا على الممسوح، فكان وظيفتها الغسل لا المسح، على أنه إن وقع التعارض بين القراءتين فالحكم فى تعارض القراءتين كالحكم فى تعارض الآيتين، وهو أنه إن أمكن العمل بهما مطلقا يعمل، وإن لم يمكن للتنافي يعمل بهما بالقدر الممكن، وههنا لا يمكن الجمع بين الغسل، والمسح فى عضو واحد فى حالة واحدة؛ لأنه لم يقل به أحد من السلف
یہ حدیث دلیل ہے کہ پاؤں کو دھونا وضو کے فرائض میں سے ہے، متواتر روایات سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے ہوئے دونوں پاؤں کو دھوتے تھے۔ اس کا انکار کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور فعل ہی آیت کی مراد ہے۔ پس متصل اور منفصل دلائل سے ثابت ہوا کہ آیت میں ارجل مغسول (جسے دھویا جائے) پر عطف ہے، نہ کہ ممسوح (جس پر مسح کیا جائے) پر۔ یوں پاؤں کو دھویا جائے گا، نہ کہ ان پر مسح کیا جائے گا۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ جب دو قراءات میں تعارض واقع ہو جائے، تو دو قراءات میں تعارض کا وہی حکم ہوتا ہے، جو دو آیتوں میں تعارض کا حکم ہے۔ وہ یہ کہ جب مطلق طور پر دونوں پر عمل کرنا ممکن ہو، تو دونوں پر عمل کیا جائے گا اور جب دونوں میں مخالفت کی وجہ سے دونوں پر عمل کرنا ممکن نہ ہو، تو دونوں پر ممکنہ حد تک عمل کیا جائے گا۔ یہاں بیک وقت ایک ہی حالت میں ایک ہی عضو کو دھونا اور مسح کرنا ممکن نہیں، کیونکہ سلف میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔
(بدائع الصنائع: 1/6)
❀ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (855ھ) فرماتے ہیں:
أما فعلا فهو ما ثبت بالنقل المستفيض والنصوص المتواترة أنه عليه السلام غسل رجليه فى الوضوء ولم تختلف الأمة فيه
رہی فعلی حدیث، تو مشہور روایات اور متواتر نصوص سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں پاؤں کو دھویا ہے، اس میں امت کا اختلاف نہیں۔
(البناية شرح الهداية : 156/1)