وضوء و غسل کے بعد اعضاء خشک کرنا: جائز یا مکروہ؟
سوال:
کیا وضوء اور غسل کے بعد تولیے کا استعمال کرتے ہوئے اعضاء کو خشک کرنا جائز ہے؟
سائل: اخوكم اورنگزیب
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وضوء اور غسل کے بعد تولیہ استعمال کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، تاہم علماء کرام رحمہم اللہ کے درمیان یہ اختلاف ضرور پایا جاتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس کا ثبوت ملتا ہے یا نہیں؟
علماء کے اقوال:
امام ابن القیم رحمہ اللہ:
زاد المعاد (1/68) میں فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوء کے بعد اعضاء خشک کرنے کی عادت نہیں تھی اور اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس روایات موجود ہیں۔”
انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث ذکر کی:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کپڑا تھا جس سے آپ وضوء کے بعد اعضاء خشک کیا کرتے تھے۔”
اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت:
"میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوء کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے کپڑے کے کنارے سے منہ پونچھ لیا۔”
ابن القیم فرماتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں:
پہلی حدیث میں سلیمان بن أرقم ہے، جو متروک راوی ہے۔
دوسری روایت میں الافریقی ہے، جو ضعیف راوی ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ:
فرماتے ہیں:
"اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی صحیح ثابت نہیں ہے۔”
امام ابوداؤد رحمہ اللہ کا قول:
سنن ابوداؤد (1/37) میں ذکر ہے:
"اعمش نے کہا: میں نے اس کا ذکر ابراہیم (نخعی) سے کیا تو انہوں نے فرمایا: صحابہ کرام تولیے کے استعمال کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے، لیکن اسے عادت بنانا مکروہ جانتے تھے۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہ کرنا:
امام ابن القیم رحمہ اللہ کے مطابق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث میں آتا ہے کہ آپ وضوء یا غسل کے بعد خود کو خشک نہیں کرتے تھے۔
مثال کے طور پر:
پہلی حدیث:
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا، پھر غسل کی جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے۔ میں نے آپ کو کپڑا دیا لیکن آپ نے نہیں لیا اور اپنے ہاتھوں سے پانی جھاڑتے ہوئے چل دیے۔”
(صحیح بخاری 1/40، صحیح مسلم 1/147، مشکاة المصابیح 1/48)
دوسری حدیث:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، اقامت ہو چکی تھی، صفیں درست ہو چکی تھیں، ہم آپ کی تکبیر کے منتظر تھے۔ آپ نے فرمایا: اپنی جگہ کھڑے رہو، پھر آپ نکلے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔”
(صحیح بخاری 1/89، صحیح مسلم 1/220، سنن ابوداؤد 1/35)
تیسری حدیث:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا: نماز!
عطاء کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور آپ نے سر کے ایک جانب ہاتھ رکھا ہوا تھا۔
آپ نے فرمایا: اگر میری امت پر مشقت نہ ہوتی تو میں انہیں اس نماز کو ایسے ہی پڑھنے کا حکم دیتا۔”
(صحیح مسلم 1/229)
مبارکپوری رحمہ اللہ کا بیان:
تحفۃ الاحوذی (1/57) میں فرماتے ہیں:
"وضوء کے بعد خشک کرنے کے بارے میں جو احادیث ذکر کی گئیں وہ سب ضعیف ہیں، سوائے ابو مریم کی حدیث کے، جو کسی صحابی سے مروی ہے۔”
حافظ عینی رحمہ اللہ کا قول:
فرماتے ہیں:
"امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو الکنیٰ میں صحیح سند سے روایت کیا ہے۔”
لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ:
"مجھے امام نسائی کی کتاب ‘الکنیٰ’ دستیاب نہیں ہو سکی۔”
امام ابن منذر رحمہ اللہ کا قول:
انہوں نے کہا کہ وضوء کے بعد تولیہ استعمال کرنے کا عمل درج ذیل صحابہ سے منقول ہے:
◈ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
◈ حسن بن علی رضی اللہ عنہما
◈ انس رضی اللہ عنہ
◈ بشیر بن مسعود رضی اللہ عنہ
اور جن تابعین نے اس کی رخصت دی ہے:
◈ حسن بصری
◈ ابن سیرین
◈ علقمہ
◈ اسود
◈ مسروق
◈ ضحاک
اور جو ائمہ اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں سمجھتے:
◈ امام مالک
◈ امام احمد بن حنبل
◈ امام سفیان ثوری
◈ امام اسحاق بن راہویہ
◈ اصحاب الرائے
راجح قول:
"میرے نزدیک وضوء یا غسل کے بعد اعضاء خشک کرنا جائز ہے۔”
شیخ البانی رحمہ اللہ کا فتویٰ:
السلسلۃ الصحیحۃ (5/133، حدیث نمبر: 2099) میں فرماتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا جس سے آپ وضوء کے بعد منہ اور ہاتھ خشک کرتے تھے۔”
انہوں نے کہا:
"اس حدیث کی تمام اسانید کو جمع کرنے پر یہ حدیث حسن بنتی ہے، اور انہوں نے وہ تمام اسانید ذکر کی ہیں۔”
نتیجہ:
اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
وضوء اور غسل کے بعد اعضاء کو خشک کرنا جائز ہے۔
تاہم زیادہ محبوب عمل یہ ہے کہ جواز کے باوجود خشک نہ کیا جائے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب