وصال کے روزے کا مفہوم اور شرعی حیثیت
وصال کے روزے سے مراد
وصال کے روزے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص دو دن یا اس سے زیادہ دن افطار کیے بغیر مسلسل روزے رکھے۔ یعنی وہ شام کو افطار نہ کرے اور اگلے دن کے روزے میں داخل ہو جائے، یوں یہ مسلسل روزہ ہوتا ہے جس میں افطار کا وقفہ نہیں ہوتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«من أَرَادَ أَنْ يُوَاصِلَ فَلْيُوَاصِلْ إِلَى السَّحَرِ»
(صحیح البخاری، الصوم، باب الوصال إلى السحر، ح: 1967)
"جو شخص وصال کرنا چاہے، وہ سحری تک وصال کرے۔”
یعنی جو شخص وصال کی نیت کرے، وہ صرف سحری تک روزہ جاری رکھ سکتا ہے، مکمل دو دن یا اس سے زیادہ بغیر افطار کے روزہ رکھنا جائز نہیں۔
سحری تک وصال کی اجازت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سحری تک وصال کی اجازت دی ہے، اسے شرعی حکم کے طور پر نہیں بلکہ رخصت کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ شریعت کی عمومی تعلیم یہی ہے کہ روزہ افطار میں جلدی کی جائے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ»
(صحیح البخاری، الصوم، باب تعجيل الإفطار، ح: 1957، وصحیح مسلم، الصيام، باب فضل السحور، ح: 1098)
"لوگ ہمیشہ خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک جلد افطار کرتے رہیں گے۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کرنا
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ تو وصال کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ»
(صحیح البخاری، الصوم، باب بركة السحور في غير إيجاب، ح: 1922)
"یقینا میں تمہاری ہیئت جیسا نہیں ہوں، میری حالت تم سے مختلف ہے۔”
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی و روحانی طاقت عام انسانوں سے بڑھ کر تھی، اس لیے آپ کا وصال کرنا ایک خاص حالت تھی، جو امت کے لیے نمونہ نہیں بلکہ آپ کی خصوصیت ہے۔
نتیجہ
وصال کے روزے، یعنی افطار کے بغیر مسلسل روزے رکھنا شریعت میں منع ہے۔ صرف سحری تک وصال کی اجازت دی گئی ہے، لیکن اصل ہدایت یہی ہے کہ افطار میں جلدی کی جائے اور سحری کو تاخیر سے کیا جائے۔
هٰذَا مَا عِندِي وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ