وسیلے کے احکام: جائز اور ناجائز توسل کی مکمل وضاحت
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

وسیلے کے احکام – تفصیلی جائزہ

سوال:

وسیلے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول الله، أما بعد!

یہ ایک اہم مسئلہ ہے، لہٰذا اس کا مفصل جواب پیش کیا جا رہا ہے۔ ’’توسل‘‘، عربی فعل توسل یتوسل سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ایسا ذریعہ یا وسیلہ اختیار کرنا جو مطلوب تک پہنچنے کا ذریعہ بنے۔ یعنی توسل کا اصل مطلب کسی مقصد تک پہنچنے کی طلب اور کوشش ہے۔

توسل کی اقسام:

➊ صحیح وسیلہ (جائز اور مشروع توسل)

صحیح وسیلہ وہ ہے جو شرعی اعتبار سے درست ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف قرب کا ذریعہ بنے۔ اس کی متعدد صورتیں ہیں:

1.1 اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کے ساتھ توسل

عمومی صورت:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ایک دعا مذکور ہے جو غم و فکر کے ازالے کے لیے ہے:

«اَللّٰهُمَّ إِنِّی عَبْدُك ،َابْنُ عَبْدِك ،َابْنُ أَمَتِك،َ نَاصِيَتِی بِيَدِك مَاضٍ فِیَّ حُکْمُك عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُك أَسْأَلُك اللهمَ بِکُلِّ اسْمٍ هُوَ لَك سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَك،أو أنزلته فی کتابك،َ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِتك أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِی عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَك أن تجعل القرآن ربيع قلبی َََ۔۔۔۔۔۔َ»
’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے، میں تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات پاک کا نام رکھا ہے یا جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی سکھایا ہے یا جسے تو نے علم غیب میں اپنے ہی پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کریم کو میرے لئے بہاردل بنادے۔‘‘
(مسند احمد: ۳۹۱/۱)

اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنیٰ کو وسیلہ بنایا گیا ہے:

اَسْئَلُك بِکُلِّ اسْمٍ هُوَ لَك سَمَّيْتَ بِه نَفْسَك

’’میں تجھ سے تیرے ہر اس اسم پاک کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جو تیرا نام ہے اور جس سے تو نے اپنی ذات گرامی کو موسوم کیا ہے۔‘‘

خصوصی صورت:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں مانگنے کے لیے دعا سکھانے کی درخواست کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی:

«اَللّٰهُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِيرًا وَّلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِك وَارْحَمْنِی إِنَّك أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمُ»
’’اے اللہ! بے شک میں نے اپنی جان پر حدسے زیادہ ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا، پس تو اپنی خاص مغفرت سے میرے سارے گناہ معاف فرما دے اور مجھ پررحم فرما، بے شک تو ہی(غفور) یعنی حدسے زیادہ مغفرت کرنے والا اور نہایت رحم وکرم کا معاملہ فرمانے والا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري، ح: ۸۳۴، صحیح مسلم، ح: ۲۷۰۵)

یہاں "غفور” اور "رحیم” کے وسیلے سے دعا کی گئی ہے۔

﴿وَلِلَّهِ الأَسماءُ الحُسنى فَادعوهُ بِها﴾(سورة الأعراف: ۱۸۰)

’’اور اللہ کے لئے (أسماء حسنی) ہیں، سو تم اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘

1.2 اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ توسل

عمومی صورت:
مثلاً: ’’اے اللہ! میں تیرے اسمائے حسنیٰ اور صفات اعلیٰ کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘

خصوصی صورت:
ایک مخصوص حاجت کے لیے کسی خاص صفت کا وسیلہ، جیسا کہ دعا:

«اَللّٰهُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَيْبِ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْيِنِی مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِی وَتَوَفَّنِی إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِی»
’’اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور مخلوق پر قدرت کے وسیلے سے تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم کے مطابق میرے لیے مرنا بہتر ہو تو تومجھے وفات عطاء فرمادے۔‘‘
(سنن النسائی، ح:۱۳۰۶)

اسی قبیل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے کلمات بھی آتے ہیں، جن میں سابقہ انبیاء کے ساتھ بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔

1.3 ایمان کو وسیلہ بنانا

ایمان کو وسیلہ بناتے ہوئے دعا کرنا، جیسے:
بحـنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ ﴿١٩١﴾ رَبَّنا إِنَّكَ مَن تُدخِلِ النّارَ فَقَد أَخزَيتَهُ وَما لِلظّـلِمينَ مِن أَنصارٍ ﴿١٩٢﴾ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعنا مُنادِيًا يُنادى لِلإيمـنِ أَن ءامِنوا بِرَبِّكُم فَـٔامَنّا رَبَّنا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَكَفِّر عَنّا سَيِّـٔاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الأَبرارِ ﴿١٩٣﴾(سورة آل عمران: ۱۹۳
بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار (تدبر وتفکر)کرتے ہیں (وہ کہتے ہیں:) اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے فائدہ پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، پس تو ہمیں آگ(جہنم) کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا جو ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف فرمادے اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کر دے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔‘‘

1.4 عمل صالح کے ذریعے توسل

تین افراد کا غار میں پھنسنے والا واقعہ، جنہوں نے اپنے اعمال صالحہ کا وسیلہ پیش کر کے دعا کی:

(صحیح البخاري، حدیث: ۲۲۱۵)
ہر ایک نے کہا: ’’اے اللہ! اگر میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہماری مشکل کو دور فرما دے۔‘‘

1.5 اپنی عاجزی اور حالت زار کو وسیلہ بنانا

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا:

﴿رَبِّ إِنّى لِما أَنزَلتَ إِلَىَّ مِن خَيرٍ فَقيرٌ﴾(سورة القصص: ۲۴)

’’اے میرے پروردگار! بے شک تو میری طرف جو بھی خیر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا:

﴿قالَ رَبِّ إِنّى وَهَنَ العَظمُ مِنّى وَاشتَعَلَ الرَّأسُ شَيبًا وَلَم أَكُن بِدُعائِكَ رَبِّ شَقِيًّا﴾(سورة مريم: ۴)

’’انہوں نے کہا: اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں (بڑھاپے کے سبب) کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے (کی سفیدی) سے شعلہ مارنے لگا ہے اور اے میرے پروردگار! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔‘‘

1.6 نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ

صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے تھے، جیسا کہ بارش کے لیے دعا کے موقع پر ہوا:

(صحیح البخاري، حدیث: ۱۰۱۴، صحیح مسلم، حدیث: ۸۹۷)

حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت میں بغیر حساب داخلے کی دعا کی درخواست کی، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَنْتَ مِنْہُمْ

(صحیح البخاري، حدیث: ۵۷۰۵، صحیح مسلم، حدیث: ۲۲۰)
ایسی دعا میں یہ نیت ہو کہ اپنے مسلمان بھائی کو بھی فائدہ پہنچے۔

➋ غیر صحیح (باطل) وسیلہ

ایسا وسیلہ جو شریعت میں ثابت نہ ہو، باطل اور غیر شرعی ہے۔

2.1 میت کی دعا کا وسیلہ

میت سے دعا کروانے کی درخواست کرنا شریعت کے خلاف ہے کیونکہ وفات کے بعد عمل منقطع ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات کے بعد کسی کے لیے دعا نہیں کر سکتے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی، اور فرمایا:

«اَللّٰهُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِيْنَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا»
’’اے اللہ! پہلے ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے (جب وہ زندہ ہم میں موجود تھے) تو تو ہمیں بارش سے نوازدیاکرتا تھا۔ اب (جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود نہیں ہیں) تیرے نبی کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) بطور وسیلہ پیش کر کے دعا کر رہے ہیں، اب تو ہمیں بارش عطا فرما دے۔‘‘
(صحیح البخاري، حدیث:۱۰۱۰)

یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وفات یافتہ سے دعا کی درخواست غیر مشروع ہے۔

2.2 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ یا مقام کا وسیلہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ (مرتبہ) کو وسیلہ بنانا شریعت سے ثابت نہیں، کیونکہ جاہ کا فائدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے لیے ہے، دوسرے لوگوں کے لیے نہیں۔ فائدہ مند وسیلہ وہ ہوتا ہے جس کا اثر دعا مانگنے والے پر ہو، مثلاً ایمان، محبت، اعمال صالحہ۔

صحیح طریقہ یہ ہے:

  • "اے اللہ! میں آپ پر اور آپ کے رسول پر ایمان کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں”
  • "اے اللہ! مجھے آپ کے رسول سے جو محبت ہے، اس کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں”

خلاصہ کلام:

  • ❀ جائز وسیلے وہ ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہوں جیسے اسماء و صفات، ایمان، عمل صالح، دعا، عاجزی، وغیرہ۔
  • ❀ ناجائز وسیلے وہ ہیں جن کا ثبوت شریعت سے نہ ہو جیسے میت سے دعا کی درخواست یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ کو وسیلہ بنانا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1